جنیوا ( نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں پاکستانیوں اور متاثرہ علاقوں کی تعمیرنو و بحالی کیلئے پاکستان کو بین الاقوامی برادری، دوست ممالک، کثیر الجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی معاونت کی ضرورت ہے، پاکستان اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں اور ذمہ داریوں میں پرعزم ہے، پاکستان مختلف شعبوں میں اصلاحات متعارف کرا رہا ہے، بدترین سیلاب نے پاکستان کی ضروریات کو بڑھا دیا ہے جبکہ ہمارے پاس مالی گنجائش کم ہے، پاکستان کو مختصر اور درمیانی مدت کیلئے مالی معاونت اور گنجائش درکار ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر خزانہ نے پیر کو سوئٹرزلینڈ کے شہر جنیوا میں انٹر نیشنل کانفرنس آن کلائمیٹ ریزیلیئنٹ پاکستان کے پہلے پلینری سیشن کی مشترکہ صدارت کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی اور موسمیاتی اثرات، روس۔یوکرین جنگ، عالمی کساد بازاری اور غربت جیسے مسائل کا پہلے سے سامنا کر رہا تھا، ان حالات کے تناظر میں ملک کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، گذشتہ 30 برسوں میں پہلی مرتبہ گذشتہ مون سون میں 6 گنا زیادہ بارشیں ہوئیں جس سے ملک بھر بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں شدید تباہی اور نقصان ہوا، سیلاب سے مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے، 1700 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، 13 ہزار زخمی ہوئے، 30 ہزار کلومیٹر سڑکیں اور شاہراہیں تباہ ہوئیں،440 پل تباہ ہوئے، 500 ملین ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، 2 ملین کے قریب گھر عارضی یا جزوی طور پر متاثر ہوئے جبکہ 10 لاکھ مال مویشی ہلاک یا لاپتہ ہو گئے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سیلاب کے بعد مہینوں تک پانی کھڑا رہا جس سے فصلیں بروقت کاشت نہ ہو سکیں اور ہماری زراعت متاثر ہوئی، کھڑے پانی کی وجہ سے سکول اور ہسپتال بند رہے، مقامی طور پر بھی رابطہ مشکل رہا، عارضی پناہ گاہوں میں لوگوں کو ٹھہرایا گیا جبکہ ہسپتالوں کا کام بھی عارضی طور پر چلانا پڑا، سیلاب سے 22 ہزار سکول بند ہوئے جس سے لاکھوں بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی امداد اور تعمیرنو و بحالی کیلئے ہمیں مربوط کوششوں کی ضرورت ہے، حکومت پاکستان نے متاثرہ لوگوں اور علاقوں کی امداد اور بحالی کو اولین ترجیح دی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت فوری طور پر 70 ارب روپے کی ہنگامی کیش معاونت فراہم کی گئی، 8.17 ملین متاثرین کو نقد امداد دی گئی، 2.7 ملین خاندانوں کو کیش ریلیف اور دیگر ضروری امداد دی گئی ہے اور دی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے عالمی بینک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عالمی بینک نے سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیرنو کے سلسلہ میں 1.6 ارب ڈالر کی معاونت کا اعلان کیا جبکہ 500 ملین ڈالر کی معاونت کلائمیٹ ریزیلیئنٹ پاکستان کیلئے فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ڈی ایم اے نے عالمی اداروں کے تعاون سے جو تخمینہ لگایا ہے اس کے مطابق سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے جبکہ تعمیرنو و بحالی کیلئے پاکستان کو 16.3 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، پاکستان دوطرفہ اور کثیر الجہتی شراکت داروں کے ذریعے آئندہ تین برسوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اس میں سے آدھے وسائل پاکستان اپنے مالیاتی نظام کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کرے گا، اگلے تین برسوں میں ہمیں 8 ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہو گی، دوست ممالک کثیر الجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی حمایت سے نہ صرف تعمیرنو و بحالی کی کوششوں کو فائدہ ہو گا بلکہ پاکستان کیلئے اتنی مالی گنجائش بھی نکل آئے گی جس سے پاکستان اپنی بیرونی ادائیگیوں اور دیگر بین الاقوامی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے پورا کرنے کے قابل ہو گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجہ میں پاکستان پر مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں، ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر گذشتہ سیلاب کی طرح ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان سرفرست ہے، اس صورتحال اور توانائی و اشیاء خوردونوش کی عالمی قیمتوں میں اضافہ کے تناظر میں سماجی استحکام پاکستان کیلئے ایک تشویش کا حامل ہے۔ وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں اور ذمہ داریوں میں پرعزم ہیں، پاکستان مختلف شعبوں میں اصلاحات متعارف کرا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ محصولات میں اضافہ اور سماجی شعبہ پر اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم حالیہ بدترین سیلاب نے پاکستان کی ضروریات کو بڑھا دیا ہے جبکہ ہمارے پاس مالی گنجائش کم ہے، اس صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو عالمی معاونت کی ضرورت ہے، ہمیں مختصر اور درمیانی مدت کیلئے مالی معاونت اور گنجائش درکار ہے، ہمیں امید ہے کہ عالمی برادری، دوست ممالک اور دوطرفہ اور کثیر الجہتی شراکت دار اس مشکل مرحلہ میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بحالی و امداد ہماری فوری ضرورت ہے تاہم ہمیں ان 33 ملین متاثرہ لوگوں کو بھی مدنظر رکھنا ہے، اس صورتحال میں ڈیٹ سواپ اور دیگر مالیاتی اقدامات کے ذریعے لاکھوں سیلاب متاثرین کی امداد کے نیک مقصد کو آگے بڑھایا جا سکا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کے ساتھ شانہ بشانہ ہے، ہمیں بحرانوں کے دنوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔ وزیر خزانہ نے بین الاقوامی برادری کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریزیلیئنٹ ریکوری سٹرٹیجک میں دوطرفہ شراکت داروں، دوست ممالک، این جی اوز اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی حمایت پر بھی پاکستان ان سب کا مشکور ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال پلانری سے خطاب کرتے ہوئے شرکاء کو حالیہ بدترین سیلاب سے ہونے والے نقصان پر تفصیلی بریفنگ دی اور کہا کہ 2022ء میں پاکستان ایک بدترین سیلاب آیا جس سے 33 ملین افراد کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور سندھ کے 20 پسماندہ اضلاع کو نقصان پہنچا، اس کے ساتھ پنجاب، خیبرپختونخوا کے کچھ اضلاع کو بھی نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی ڈھانچہ کی بحالی کیلئے حکومت پاکستان کو 16 ارب ڈالر کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اولین ترجیح لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات کو دوبارہ شروع کرانا ہے، بچوں اور خواتین کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا جبکہ آبی نقائص، صحت اور دیگر سہولتیں آئندہ تین سال میں اپنے وسائل سے پورا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے آئندہ نمٹنے کیلئے 14 ارب ڈالر کے منصوبہ بنایا ہے۔ وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے کہا کہ وزارت اکنامک افیئر ڈویژن تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر سیلاب متاثرین کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں سیلاب متاثرین کو امداد پہنچائی جا رہی ہے اور اس کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ان تمام شراکت داروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ پاکستانی عوام کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پلانری سے خطاب کرتے ہوئے عالمی بینک کے صدر مارٹن ریزر نے کہا کہ 2022ء کا سیلاب غیر معمولی واقعہ تھا جس کا انہوں نے خود مشاہدہ کیا، پاکستان کی حکومت اور اداروں نے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے بروقت اقدامات کئے، عالمی بینک نے ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیرنو کیلئے حکمت عملی متعین کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اور ادارہ جاتی شفافیت کے ذریعے تعمیرنو اور بحالی کے سفر کو کامیاب بنانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ سیلاب کے بعد صوبوں کے متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو و بحالی کے کئی منصوبوں کا آغاز ہو چکا ہے، سیلاب متاثرین کی امداد اور متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے پاکستان کی حکومت کا عزم قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے اور اندازوں کے مطابق 2050ء تک پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار کا 20 فیصد نقصان ہو سکتا ہے، اس سے دیہی علاقوں میں غربت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو کلی معیشت کے استحکام، پائیدار نمو اور ترقی کیلئے بین الاقوامی مالی معاونت کی ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ درمیانی مدت کیلئے پاکستان کو اضافی مالیاتی اور معاشی اصلاحات کا عمل جاری رکھنا ہو گا، اس کیلئے بجلی کے شعبہ میں اصلاحات، برآمدات میں اضافہ اور سماجی اخراجات پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی، ہمیں یقین ہے کہ پاکستان اس مشکل صورتحال سے نکل آئے گا، عالمی بینک نے اس سے قبل بھی پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور مستقبل میں پاکستان کا ساتھ دیتا رہے گا۔ قبل ازیں اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ یو این ڈی پی کے ایڈمنسٹریٹر ایکم سٹینر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کورونا کے بعد سیلاب سے پاکستان کو معاشی طور پر دھچکا لگا جس سے لاکھوں زندگیاں متاثر ہوئیں۔ انہوں نے کانفرنس میں شریک تمام شرکا سے کہا کہ وہ ہر لحاظ سے پاکستان کو معاونت فراہم کریں، ہم اس وقت مختلف دور میں زندہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند ماہ قبل پاکستان کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان موسمیاتی تباہی کی زد میں آنے والے 8 ممالک میں شامل ہے۔