اسلام آباد(نیوزڈیسک) سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق دائر 9 درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کا اثر چیف جسٹس اور دیگر 2ججز پر ہوتا ہے، ایک طرف چیف جسٹس کے اختیار کو کم کیا جا رہا ہے اور دوسری جانبسینئر ججز کو اختیار بانٹا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ جنگ کا لفظ بہت معنی خیز ہے، کچھ کہتے ہیں کہ اختیار پارلیمنٹ کا ہے اور کچھ طبقے کہتے ہیں پارلیمنٹ کا نہیں ، میں نے سوچا میں خود اس کیس کوکیوں نہ سنوں، سپریم کورٹ اگر ایک ہی کیس سننے کو بیٹھ گئی تو دیگر کیسز متاثر ہوں گے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بارے پارلیمنٹ آمنے سامنے ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر بینچ میں سے کوئی سوال پوچھے تو اسے نوٹ کر لیں، میں بطور چیف جسٹس اپنے اختیارات سینیئر ججز کے ساتھ بانٹ رہا ہوں، یہ سوال بھی اہم ہے کہ آنے والے چیف جسٹس صاحبان اختیارات بانٹنے کو درست قرار دے رہے ہیں یا نہیں۔ پہلے سوچا خود بینچ میں نا بیٹھوں، پھر طے کیا تمام ججز اس کیس کو سنیں گے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ درخواستوں پر سماعت کررہا ہے جس میں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی آج کیس کا اختتام کریں، ایک کیس کو ہی لےکر نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیس زیر التوا ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ آج اس قانون کا اثربالخصوص چیف جسٹس اور دو سینئر ججزپرہوگا، اختیارات کوکم نہیں بانٹا جارہا ہے، اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہوگا، چیف جسٹس کا اختیار اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ججز سمجھتے ہیں پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ایسانہیں سمجھتے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سب نے اپنے جوابات قلمبند کر دیے ہیں، ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئر وکلا ہیں، سب کوسنیں گے۔سماعت کے دورا اکرام چوہدری نے سابق وزیراعظم سے متعلق خبر پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ خبریں نا پڑھیں جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، عدالت کو سیاسی بحث کے لیے استعمال نا کریں، میڈیا موجود ہے وہاں جا کر سیاست کریں، قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کا حق سلب کیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں کا بھی خیال ہے اس قانون سے سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آگئے، میں لفظ جنگ استعمال نہیں کرونگا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اب قانون بن چکا ہے، حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتا تھا یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہےتوبات ختم ہوگئی، آپ کی دلیل ہےکہ آئینی ترمیم سے یہ قانون بن جائےتوٹھیک ہے، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں توکیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یالوگوں کے لیے ہے؟ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہےکہ اس کا ہرصورت دفاع کرناہے؟ عدالت کی آزادی لوگوں کے لیےنہیں ہے؟ اس بات پر روشنی ڈالیں، اگرکل پارلیمنٹ قانون بناتی ہےکہ بیواؤں کےکیسزکو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثرہوگی؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون سازی انصاف دینےکا راستہ ہموار اور دشوارکررہی ہے تویہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اورسے بھی ہے؟ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں، اگر آپ نے اپنےمعلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کی درخواست نہیں کی تویہ دلیل مت دیں، آپ نے خود اسپیکرکو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں پوری سپریم کورٹ بیٹھ کربے بنیاد دلیل سنے۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت سے قبل فریقین نے سپریم کورٹ میں تحریری جوابات جمع کرا دیئے۔
