اسلام آباد(اے بی این نیوز) فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔ شاہ خاور ایڈوکیٹ وزیر داخلہ کی جانب سے آج عدالت میں پیش ہوں گے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپکی درخواست کو نمبر لگ گیا ہے؟ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آئی، اچھے دلائل کو ویلکم کیا جائے گا اور جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے جبکہ فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا، اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ (ٹو ڈی ون) کے تحت ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل بتاٸیں کہ ملزمان کے خلاف کون سا قانون استعمال کیا جا رہا ہے؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نو مٸی واقعات سے جڑے ملزمان کے خلاف 2ڈی ٹو کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے، 2ڈی ون کے تحت ان ملزمان کا ٹراٸل ہوتا ہے جن کا کسی طرح فوج کے ساتھ تعلق ہو۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں، ایکٹ کی عدم دستیابی کے باعث ہوا میں باتیں ہو رہی ہیں، لیاقت حسین کا کن دہشت گردوں تعلق تھا، دہشت گردوں کا فوج سے کوٸی براہ راست تعلق نہیں تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق اور الگ وجوہات تھیں۔وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی یہی شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تب ہوگا، آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل اسٹرکچر کی بات کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں اور یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے، سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا اور کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔جسٹس عائشہ ملک نے اسفتسار کیا کہ افراد کی حوالگی سے پہلے فیصلہ کون کرے گا کہ ان کو حوالہ کیا جانا ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ملزمان کو فوجی عدالتوں میں حوالگی سے پہلے ہی فیئر ٹرائل سمیت تمام حقوق ملنے چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایمرجنسی نافذ نہیں اور تمام حقوق قائم ہیں تو آئین پر عمل ہی واحد آپشن ہے۔وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 175/3 بنیادی طور پر 9/10 آرٹیکل سے مطابقت رکھتا نہیں ہے، آرٹیکل 9-10 بنیادی حقوق کی بات کرتا ہے، فوجی اہلکاروں کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں گے یا نہیں علحیدہ سوال ہے، سویلینز کو آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں صرف ایک جگہ 59/4 تمام افراد پر لاگو کرنے کا کہا گیا ہے۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ایف آئی آر میں بھی سیکریٹ ایکٹ کے نفاذ کا ذکر نہیں کیا گیا، آرمی ہاکی ٹیم سپورٹس میں ہے اگر وہاں کوئی بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب آفیشل سیکریٹ نہیں ہوگا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ٹو ون ڈی صرف ان افراد پر لگے گا جن کے لیے ایکٹ بنایا گیا جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کو پورا پڑھا جائے تو یہ تب لاگو ہوتا ہے جب دشمن کو فائدہ دینے کے لیے کچھ کیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ افسران میں سب سے اہم چیز مورال ہوتی ہے، کوئی عمل جو آرمی افسر کا مورال کم کرے وہ دشمن کو فائدہ پہنچاتی ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکریٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟وکیل درخواست گزار عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ جی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے، ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں ہے، ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے تحفظ پاکستان ایکٹ کو ضم کرکے انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ 2017 میں ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشتگردی کی دفعات کو شامل کیا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتا ہے؟ یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے اور سقم قانون میں ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا یہ تفصیل موجود ہی نہیں۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرمی افسران کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی شخص پر شواہد کے بغیر الزام لگانا بے کار ہے، اٹارنی جنرل ہم نے ایسی معلومات منگوائی ہیں جو تمام والدین کے لیے فائدہ مند ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ان مقدمات میں تو ملزمان پر الزام ہی نہیں تھا، ان مقدمات میں ملزمان پر پاکستان پینل کوڈ کے الزامات ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ تو سمجھ آتی ہے کہ پہلے گرفتار کرتے ہیں پھر تحقیقات کرتے ہیں۔وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں، اور تسلیم شدہ حقائق سے بدنیتی اخذ کی جا سکتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کا میڈیا پر مکمل بین ہے، اوپن پبلک ٹرائل ہونا چاہیے اور صحافیوں کو ٹرائل کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی تعریف نہیں کی گئی، سپریم کورٹ نے 1975 کے فیصلے میں طے کیا کہ جوڈیشل سائیڈ پر طے ہوگا ملزم کون ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہوگئے جبکہ درخواست گزار ذمان وردگ نے تحریری دلائل جمع کروا دیئے۔















