اسلام آباد(نیوزڈیسک) جسٹس قاضی فائزہ عیسیٰ نے آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا آئین محض ایک کتاب نہیں اس میں عوام کے حقوق ہیں۔ یہ کتاب صرف پارلیمان کیلئے نہیں قوم کیلئے بھی اہم ہے ۔ ہم اس آئین کی تشریح کرسکتے ہیں۔ ہم پاکستان کے آئین کی پچاسویں سالگرہ منارہے ہیں۔ 1974 میں پہلی اسلامی ریاست وجود میں آئی، آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جارہا جس طرح پیش کیا جانا چاہیے۔ آئین پاکستان لوگوں کیلئے ہے۔ جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو وہ زیادہ دیر نہیں ٹھہرتی ۔ 1977 میں جو بیج بویا اس سے ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔ دسمبر 1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا ، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جھوٹ اور نفرت کے کیا نتائج نکلتے ہیں ۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد سب سے زیادہ ضرورت آئین کی تھی ۔ جسٹس منیر نے پاکستان ٹوٹنےکا بیج بویا تھا۔ 1971 میں قوم کا سر شرم سے جھک گیا تھا ۔ قوم شرمندہ تھی ۔ 4جولائی 1977 کو ایک شخص نے ایک بار پھر آئین کو توڑا ۔ اور گیارہ سال تک قوم پر حکومت کی ۔ پھر جہاز حادثے میں مارا گیا۔ ڈکٹیٹر کچھ عرصہ ہی چل سکتے ہیں۔ قیام پاکستان کےبعد سات سال تک دستور ساز اسمبلی کام کرتی رہی۔ فیڈرل کورٹ میں جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا۔ آئین پاکستان عوام کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد آئین پاکستان کا کام ادھورا رہ گیا۔ 30دسمبر1985 کو مارشل لا اٹھایا گیا۔ تاریخ سے اگر سیکھیں گے نہیں تو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ عدالتی فیصلہ تھا۔ہرشہری آئین پاکستان پرعملدرآمد کاپابند ہے ، 1962 کے آئین میں جمہوریت کو ختم کردیا گیا تھا۔ اگر کوئی فیصلہ غلط ہے تو غلط ہی رہے گا۔ چاہیے وہ سارے ججز فیصلہ کرلیں ۔ آئین کا بڑا حوصلہ ہے ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی حوصلہ دکھائیں ۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے جھوٹ اور بداخلاقی کے نتائج کیا نکلتے ہیں، دسمبر 1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا، یہ ملک اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے لئے بیج بوئے گئے، اور جو بیج بویا گیا اس نے ملک کے 2 ٹکڑے کر دیئے، 1971میں قوم کا سر جھکا ہوتا تھا اور قوم شرمندہ تھی، پھر 4 جولائی1977 کوایک شخص نے جمہوریت اور آئین پر وار کیا اور اس شخص نے11سال حکومت کی، پھرجہاز کے حادثے میں اس کا انتقال ہوگیا۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ایک ڈکٹیٹر آتا ہے، پھر کچھ عرصہ بعد خود کو دھوکا دینے لگتا ہے، اور سوچتا ہے میں تو جمہوریت پسند ہوں، 30 دسمبر 1985 میں بھی مارشل لاء اٹھایا گیا۔سینئر جج نے کہا کہ پاکستان ٹوٹنےکی بڑی وجہ غلط فیصلہ تھا، 1962 کے آئین میں جمہوریت کو ختم کر دیاگیا تھا، 12 اکتوبر 99 میں ایک آدمی نےسوچا تھا مجھ سے بہتر کوئی نہیں، اور انہوں نے دوسرا وار 3 نومبر2007 میں کیا، مشرف صاحب نے خود ہی اپنے آپ کو آئینی تحفظ دےدیا۔جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگرکوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا، تاریخ ہمیں7 بار سبق دے چکی ہے، تاریخ سے کچھ سیکھا نہیں تو وہ خود کو دہراتی رہے گی، ہم پر آئین کا بوجھ زیادہ ہے، ہر شہری آئین پاکستان کی کتاب کا پابند ہے، آئین کا بڑا حوصلہ ہے، ہمیں بھی چاہئے ہم اپنا حوصلہ دکھائیں۔جسٹس قاضی فائز ہر چیز کا اپنی جگہ پر ہونا لازمی ہے، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہےلوگوں کی مرضی، یقیناً انصاف اور حقوق کیلئےعدالتیں ہی ہوتی ہیں، سو موٹو کا لفظ آئین میں استعمال نہیں کیا گیا، آئین میں 184 تین کو سوموٹو کہا جاتا ہے، از خود نوٹس کسی کو فائدہ دینے کیلئے استعمال نہیں کیاجاسکتا، شق 184 تین کا پاکستان میں بھرپور استعمال کیا گیا۔
