اہم خبریں

اپوزیشن لیڈر کی تقرری زیرِ التوا، فیصلہ کہیں اور ہوگا، شفیع اللہ جان

اسلام آباد(‌اوصاف نیوز)وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ سرد رات میں واٹر کینن کا استعمال بہتر نہیں تھا، خصوصاً خواتین پر،لیکن عمران خان کی بہن نورین خان نے بھارتی چینل پر دیئے گئے بیان کہ ’’اڈیالہ کا دروازہ توڑ سکتے ہیں‘‘ کے بعد سکیورٹی خدشات بڑھ گئے،وہاں دیگر خطرناک قیدی بھی موجود ہیں، اس لیے صورتحال حساس ہے۔

اے بی این کے پروگرام سوال سے آگے؟ میں‌گفتگو کرتے ہوئے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات خیبر پختونخوا شفیع اللہ جان نے کہا کہ ہم نے کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا،کل رات واٹر کینن سے ہمارے ایم این اے شاہد خٹک کی ٹانگ تک ٹوٹ گئی، خواتین زخمی ہوئیں،پنجاب پولیس نے ظلم کیا،ہماری گاڑیاں پنکچر کی گئیں، کچھ اٹھا کر غائب کر دی گئیں،ہماری اہم لیڈر شپ پاپولر ہونے کی وجہ سے حکومت خوفزدہ ہے۔

انہوں‌نے مزید کہا کہ ہمیں پولیس نے کرفیو جیسی صورتحال میں رکھا ہے،ہمیں سہولتیں نہیں دی جا رہیں.

بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ اگر گاڑیوں کے نقصان کے ثبوت ہیں تو پیش کریں،سکیورٹی کی وجہ سے سخت اقدامات ضروری تھے،وزارتِ قانون اور وفاق دونوں پنجاب حکومت کے فیصلوں کے ساتھ ہیں۔

شفیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی کے سیل کا گٹر کا ڈھکن کھلا ہوا ہے، یہ کون سی بی کلاس ہے؟نواز شریف جیل میں پوری آزادی سے میڈیا سے بات کرتے تھے، لیکن عمران خان پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں یہ سب خوف کے باعث ہے۔

اے بی این کے پروگرام سوال سے آگے؟ میں‌گفتگو کرتے ہوئےلیگی رہنمابیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ یہ معاملہ زیرِ غور ہے، خصوصاً موجودہ سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر۔ خاص طور پر نورین خان نے حالیہ بیان کے بعد، جس میں انہوں نے بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے “جیل توڑنے” جیسی بات کی، اس کے بعد سیکیورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں ،ان کے الفاظ صاف تھےجیل کے دروازے توڑ دینا کوئی مشکل بات نہیں ،اب ایسی صورتحال میں حکومت کے لیے خطرات بڑھ جانا فطری ہے۔

انہوں نے مزید کہنا تھا کہ اصل وجہ قانون و امن کی صورتحال ہے۔ اڈیالہ جیل کے باہر روزانہ ہنگامہ آرائی ہوتی ہے۔ وہاں کے مقامی لوگوں کی زندگی اذیت ناک ہو چکی ہے۔ بہتر سیکیورٹی والی عام جیل میں منتقلی کوئی نئی بات نہیں۔ نواز شریف بھی پہلے اڈیالہ میں تھے پھر کوٹ لکھپت منتقل ہوئے،اسی طرح یہ منتقلی بھی عام قانونی عمل ہے، کوئی غیر معمولی قدم نہیں۔

پنجاب اسمبلی میں قرارداد ضرور منظور ہوئی ہے، لیکن یہ معاملہ تاحال وفاقی کابینہ کے سامنے نہیں آیا۔ جب آئے گا، قانونی طریقہ کار کے مطابق دیکھا جائے گا، جو بالآخر سپریم کورٹ جاتا ہے۔

لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ جو پارٹی اپنی ریگولیٹری ضروریات پوری نہیں کرتی، اس کی قانونی حیثیت کمزور پڑ جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان کے چیئرمین اور انٹرا پارٹی الیکشنز کو تسلیم نہیں کیا، یعنی پارٹی اس وقت آئینی طور پر ریکارڈ پر موجود نہیں۔جب تک قانون پورا نہیں کریں گے، نتائج انہیں بھگتنے پڑیں گے،ذاتی طور پر میرا ماننا ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی نہیں لگنی چاہیے، پانچ سال بعد عوام کا احتساب ہی اصل عداد و شمار ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما شفیع اللہ جان نے کہا کہ ہم نے ایسا کون سا غیر آئینی کام کیا ہے کہ پابندی کی بات کی جا رہی ہے؟ کابینہ کے پاس اختیار ہی کیا ہے؟ یہ تو سترہ نشستوں والے لوگ ہیں۔ اصل فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔

عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ حلقے یہ سب کر رہے ہیں، 9 اپریل سے آج تک سب ہتھکنڈے آزما لیے گئے،ریاستی جبر، پارٹی توڑنا، نشان چھیننا، ہزاروں ایف آئی آرز، بیس ہزار کارکن گرفتار، قائد جیل میں۔ پھر بھی ہم کھڑے ہیں۔

کے پی کے کے وزیر اعلیٰ مذاکرات چاہتے ہیں، ہماری مرکزی قیادت بھی بات چیت پر آمادہ ہے، لیکن ایک طرف آپ عورتوں پر واٹر کینن چلاتے ہیں، کارکنوں کو اٹھاتے ہیں، سیاسی جگہ کم کرتے ہیں،پھر مذاکرات کیسے ہوں؟جلسے میں ڈی چوک کے نعرے لگ رہے تھےتو کیا واقعی اس پر غور کیا جا رہا ہے؟

پی ٹی آئی رہنماکا مزید کہا کہ جی غور کیا جا رہا ہے، کئی آپشنز زیرِ غور ہیں، ڈی چوک، اسلام آباد، راولپنڈی، حتیٰ کہ خیبر پختونخوا کی سرحدیں بند کرنا بھی،تحریک آئینِ پاکستان کے تحت فیصلے ہوں گے، جس کے سربراہ کو عمران خان نے مکمل اختیار دیا ہوا ہے۔ وہ جو فیصلہ کریں گے، پوری پی ٹی آئی اس کی پابند ہو گی،اپوزیشن لیڈر کی تقرری بھی اسی لئے زیرِ التوا ہے کہ فیصلہ کہیں اور ہونا ہے۔
مزید پڑھیں‌:گاڑیوں کے لیے ایم ٹیگ کے اجرا کے عمل میں تیزی

متعلقہ خبریں