اہم خبریں

27ویں ترمیم پر جے یو آئی (ف) کا اعتراض!حافظ حمداللہ کا سخت مؤقف

اسلام آباد( اے بی این نیوز)جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سینئر رہنما اور سینیٹر حافظ حمداللہ نے کہا کہ 26ویں ترمیم کے دوران تقریباً 56 شقوں میں تبدیلی کی تجاویز پیش کی گئی تھیں لیکن جے یو آئی (ف) کی قیادت، خصوصاً مولانا فضل الرحمن کی مزاحمت کے باعث تمام متنازع، غیر آئینی اور بے بنیاد ترامیم کو پارلیمانی اتفاقِ رائے سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم ایک سال بعد حکومت انہی شقوں کو 27ویں ترمیم کی صورت میں دوبارہ آئین کا حصہ بنا رہی ہے، جسے انہوں نے حکومتی بددیانتی، دباؤ اور آئین سے بے وفائی قرار دیا۔

اے بی این نیوز کے پروگرام ’’ڈی بیٹ ایٹ 8‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئےحافظ حمداللہ نے کہاکہ 27ویں ترمیم نے ملک میں دو الگ قوانین کی بنیاد رکھ دی ہے: طاقتور کے لیے مستقل استثنیٰ اور کمزور کے لیے سخت ترین سزائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترمیم کے ذریعے ’’ڈی فیکٹو طاقتوں‘‘ کو باقاعدہ آئینی تحفظ دیا گیا ہے، جو تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے ہی بیانیے سے انحراف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مولانا فضل الرحمن سے جو وعدے کیے تھے، وہ توڑے گئے اور وہی ترامیم جنہیں پہلے اتفاقِ رائے سے ہٹایا گیا تھا، اب دوبارہ آئین میں شامل کر دی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف سیاسی دھوکہ دہی نہیں بلکہ آئین خود سے غداری ہے۔

اپنے ایک سینیٹر کے حکومتی صف میں جا کر ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر حافظ حمداللہ نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’امانت میں خیانت‘‘ قرار دیا۔ ان کے مطابق اس رکن نے لاکھوں عوامی ووٹوں اور پارٹی ڈسپلن کے خلاف عمل کیا، جس پر جے یو آئی (ف) نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ پروگرام میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہ کیا جے یو آئی (ف) دوبارہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر چلے گی؟ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی (ف) کبھی کسی کے ہاتھ استعمال نہیں ہوئی، بلکہ 25 جولائی 2018 کے انتخابات کے نتائج سب سے پہلے اسی جماعت نے مسترد کیے تھے اور دیگر جماعتیں بعد میں شامل ہوئیں۔ آج بھی جے یو آئی (ف) انہی اصولوں پر قائم ہے: ووٹ کی عزت، آئین کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی حرمت۔

انہوں نے کہا کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات کو جے یو آئی (ف) پہلے ہی مسترد کر چکی ہے اور 15 فروری سے مسلسل احتجاجی جلسے جاری ہیں۔ مستقبل کا لائحہ عمل مولانا فضل الرحمن کی وطن واپسی کے بعد طے کیا جائے گا۔ تحریکِ تحفظِ آئین میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ دونوں کے مقاصد ایک ہیں لیکن مشترکہ پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا بعد کا فیصلہ ہوگا۔

خیبر پختونخوا کے امن جرگے کو انہوں نے مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پہلی بار موجودہ وزیراعلیٰ نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ جمع کیا اور اعلامیے میں یہ بات واضح کی گئی کہ طاقت کے بجائے مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہائیوں میں دو سو سے زائد مذاکرات کر چکا ہے، آج بھی تجارت جاری ہے، مگر افغانستان سے دو مذاکرات کے بعد دروازہ بند کر دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے فائدہ صرف بھارت، اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک کو پہنچتا ہے، اس لیے لڑائی کی بجائے بات چیت، خطے کے ممالک—افغانستان، ایران، چین اور روس—کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔

حافظ حمداللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان 1947 سے آج تک مسلسل جنگی ماحول کا شکار رہا ہے، جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کو ایک فلاحی ریاست کی طرف لے جایا جائے، نہ کہ اسے مستقل میدانِ جنگ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مذاکرات خلوص نیت سے ہوں تو پاکستان اور خطہ دونوں دیرپا امن اور استحکام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر انہوں نے واضح کیا کہ جے یو آئی (ف) 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کر چکی ہے اور آئین کی اصل روح کی بحالی کے لیے اپنی سیاسی اور عوامی جدوجہد جاری رکھے گی۔
مزیدپڑھیں‌:رائزنگ اسٹار ایشیاء کپ: پاکستان نے بھارت کو شکست دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنا لی

متعلقہ خبریں