اسلام آباد (نیوز ڈیسک) الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے کہا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں ہونے والے حالیہ واقعات میں آئینی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ سہیل آفریدی کا وزیراعلیٰ کے طور پر انتخاب ایک مکمل قانونی اور آئینی عمل کے تحت ہوا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے تمام تحریک انصاف سے وابستہ ارکان نے ہاؤس میں نیا وزیراعلیٰ منتخب کیا اور یوں سہیل آفریدی کو واضح اکثریت کے ساتھ اعتماد حاصل ہوا۔
اے بی این نیوز کے پروگرام تجزیہ میں گفتگو کرتے ہوئےکنور دلشاد نے کہا کہ گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے دیا گیا موقف آئین کے آرٹیکل 130 سے متصادم ہے۔ ان کے مطابق، آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ جب وزیراعلیٰ اپنا استعفیٰ گورنر کو پیش کرتا ہے تو وہ ازخود مؤثر ہو جاتا ہے، اس کے لیے گورنر کی منظوری یا ذاتی موجودگی ضروری نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ “میں شہر سے باہر ہوں، 15 تاریخ کو واپس آ کر دیکھوں گا” آئینی لحاظ سے درست مؤقف نہیں۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے استعفے کے بعد گورنر کی جانب سے کسی تاخیر یا استحقاق کی گنجائش نہیں رہتی۔ اگر گورنر شہر یا ملک سے باہر ہیں تو انہیں اپنی غیر موجودگی میں قائم مقام گورنر تعینات کرنا چاہیے تھا۔ ان کے مطابق، اگر گورنر اپنی آئینی ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے تو سپیکر صوبائی اسمبلی قائم مقام گورنر کے طور پر کام کر سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سہیل آفریدی کا انتخاب ایک جمہوری اور آئینی عمل کے ذریعے ہوا ہے، جس میں تحریک انصاف کے تمام 90 اراکین نے متفقہ طور پر انہیں ووٹ دیا۔ کنور دلشاد نے کہا کہ یہ پارٹی کے اندر اتفاق رائے کا مظہر ہے اور ایک مضبوط جمہوری مثال بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے اس انتخابی عمل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن ماضی میں اس طرح کے کیسز کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ اسمبلی کے اندر ہونے والا انتخاب آئینی طور پر مضبوط بنیاد رکھتا ہے۔ انہوں نے بطور مثال پرویز الٰہی، حمزہ شہباز، اور شہباز شریف کے حلف برداری کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں نے ماضی میں بھی ایسے معاملات میں اسمبلی کے فیصلوں کو تسلیم کیا ہے۔
کنور دلشاد نے کہا کہ اگر گورنر نے جان بوجھ کر آئینی ذمہ داری ادا نہیں کی یا غیر معمولی تاخیر کی، تو ان کے خلاف آئینی شکنی کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ ماضی میں بھی ایسے کیسز میں سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے خلاف آئین کی خلاف ورزی پر کارروائی کی سفارش کی جا چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس معاملے میں سیاسی پہلو نمایاں ہیں، لیکن آئینی طور پر سہیل آفریدی کا انتخاب درست اور قانون کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر خیبر پختونخوا کو چاہیے کہ وہ آئینی ذمہ داریوں کا احترام کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کو تسلیم کریں، تاکہ صوبے میں سیاسی استحکام اور گورننس کا عمل متاثر نہ ہو۔
مزیدپڑھیں:کپل شرما گنجے،موٹا پیٹ،صرف 100 روپے معاوضہ ،سدھو کے انکشافات،مزید تفصیل جا نئے