اہم خبریں

کوئی سمجھتا ہے اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر

پشاور ( اے بی این نیوز    )ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کی عوام کی مدد سے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ پاک فوج کے جوانوں کی قربانیوں کی وجہ سے ملک میں امن ہے۔ میں افواج پاکستان کی جانب سے تجدید عزم کرنے آیا ہوں۔ دو دہائیوں سے پاکستان بالخصوص کے پی دہشتگردی کے ناسور سے نبردآزما ہے۔ کے پی کے عوام دہشتگردی کا بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں شہید ہونیوالوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ بہادر سپوتوں نے اپنے خون سے بہادری کی تاریخ رقم کی ہے۔
پاک افواج دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں۔ ہم سب نے مل کر دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی صورتحال کاجائزہ لینا ہے۔ خیبرپختونخوا کے غیور عوام دہشتگردی کامقابلہ کررہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 14ہزار500سے زائد آپریشنز کئے گئے ۔ ان آپریشنز میں 769دہشتگردوں کوہلاک کیاگیا۔ 2025میں 10ہزار115آپریشنز کئے گئے ۔
دھرتی کے بہادر سپوتوں نے اپنے خون سے بہادری کی تاریخ رقم کی۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں،انکے سہولتکاروں کوجگہ دی گئی۔بھارت افغانستان کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے اڈے کے طور پر استعمال کرتاہے۔ 2021کے بعد دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ رواں سال ہلاک خارجیوں کی تعدادپچھلے 10سال میں سب سے زیادہ ہے۔ 2024میں آپریشن کے دوران کے پی میں 577افرادشہیدہوئے۔
جن میں پاک فوج کے272افسر،جوان،پولیس کے140اور165شہری شامل ہیں۔ دہشتگردی کے پیچھے گٹھ جوڑکومقامی، سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ 2025میں 10ہزار115آپریشنز کئے گئے ۔ رواں سال کے پی میں 917دہشتگردوں کوہلاک کیاگیا۔ رواں سال کے پی میں 917دہشتگردوں کو ہلاک کیاگیا۔ رواں سال ہلاک خارجیوں کی تعداد پچھلے 10سال میں سب سے زیادہ ہے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں اورانکے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔
پچھلی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان میں سے کچھ نکات حذف کئے۔ بھارت افغانستان کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے اڈے کے طورپر استعمال کرتا ہے۔ دہشتگردی میں اضافے کی وجہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو پھر غزوات نہ ہوتیں۔ دہشتگردی کے پیچھے گٹھ جوڑ کو مقامی،سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ دہشتگردی کے معاملے پر سیاست کی گئی اور قوم کو الجھایاگیا،۔
گمراہ کن بیانیہ سے دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کو کمزور کیاگیا۔ 2014 اور2021 میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے جوڈیشل سسٹم مضبوط کرنے کا کہاگیاتھا۔ خیبرپختونخوا میں کائونٹر ٹیررازم کیلئے کم ا ہلکار رکھے گئے۔ ریاست نے افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کیا اس پر سیاست کی جاتی ہے،بیانیہ بنایاجاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے 14میں سے پہلا پوائنٹ ان دہشتگردوں کا خاتمہ تھا۔ آپ کے عمائدین نے فیصلہ کیا کہ ہم بیانیہ بنائیں گے پھر گمراہ کن بیانیہ بنایاگیا۔ کور ہیڈ کوارٹر پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
بھارت کی دہشتگردوں کو مکمل طورپر پشت پناہی حاصل ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے کہا سمگلنگ اور ٹیررنیٹ ورک کو ختم کرنا ہے۔ مدارس کورجسٹرڈ کرنا تھا جو ہم نہیں کرسکے۔ سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اتفاق کیاتھا۔ پچھلی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان میں سے کچھ نکات حذف کئے۔ دہشتگردی میں اضافے کی وجہ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد نہ ہونا ہے۔ دہشتگردی کوجڑ سے اکھاڑنے کیلئے14نکات پراتفاق ہواتھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے نکات پرسیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا۔ بھارت نے حملہ کیاتوعوام نے کیوں نہیں کہا کہ بات چیت کرلیں؟۔ کیا آج ہم ایک بیانیے پرکھڑے ہیں؟۔
کیا آج دہشتگردوں سے مذاکرات کی آوازیں نہیں سنائی دیتیں؟۔ ہرمسئلے کاحل بات چیت میں ہوتا توپھرغزوات نہ ہوتے ۔ پولیس کے کاؤنٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کومضبوط کرناہوگا۔ افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناگاہیں ہیں۔ دہشتگردی کے معاملے پر سیاست کی گئی اور قوم کوالجھایاگیا۔ دہشتگردی کو گورننس ،کارکردگی سے ختم کرنے کے بجائےابہام پیدا کیاجارہاہے۔
آرمی چیف واضح کہہ چکے ہیں کہ گورننس کے گیپ کوہمارے ادارے خون سے پورا کررہے ہیں۔
گورننس کے اس فقدان کا خمیازہ ہمارے جوان اپنے خون سے ادا کررہےہیں۔ جب ہندوستان نے میزائل داغے تو عوام نے کیوں نہیں کہا بات چیت کرلیں۔ ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو میدان بدرکو یاد کریں۔ ہمارے جوان اور بچے ہر روز قربانیاں دے رہے ہیں۔ آرمی چیف واضح کہہ چکے کہ گورننس کے گیپ کوہمارے ادارے خون سے پورا کررہے ہیں۔ گورننس کے اس فقدان کاخمیازہ ہمارے جوان اپنے خون سے اداکررہے ہیں۔
بھارت کی دہشتگردوں کو مکمل طورپر پشت پناہی حاصل ہے۔ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے دہشتگردی آج موجود ہے۔ پہلی وجہ نیشنل ایکشن پلان پرعمل نہ ہونا ہے ۔ دوسری وجہ دہشتگردی کے معاملے پر سیاست کرکے قوم کوالجھانا ہے ۔ تیسری وجہ بھارت کاافغانستان کوپاکستان کیخلاف دہشتگردی کیلئے اکسانا ہے۔ افغانستان میں دہشتگردوں کوپناہ گاہیں،جدیدہتھیاروں کی فراہمی بھی ایک وجہ ہے۔
2سالوں میں 30کے قریب خودکش حملہ آور افغان شہری تھے۔ اپنی ذات اور مفاد کیلئے کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ خیبرپختونخوا عوام کا سودا کرے۔ کیا ہمارےشہدا اس بات کی گواہی نہیں دے رہے کہ ان پوائنٹس پر کام ہورہاہے۔ دہشتگردوں اوران کے سہولت کاروں کیلئےزمین تنگ کردی جائے گی۔ سہولت کاروں کے پاس تین راستے ہیں۔ خارج کو ریاست کے حوالے کیاجائے۔ ریاست کیساتھ ملکر خارجیوں اور دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں کریں۔ ریاست،افواج اور ادارے کسی قسم کے گٹھ جوڑکو برداشت نہیں کریں گے۔ ہمیں سیکیورٹی کیلئے کسی بھیک کی ضرورت نہیں۔
پاکستان قوم سیسہ پلائی دیوارکی طرح دہشتگروں اور سہولت کاروں کے خلاف کھڑی ہے۔جوخارجیوں کی سہولت کاری کرے گاوہ انجام کو پہنچے گا۔ خارجیوں کے ناسورکو انجام تک پہنچانے کےلئے عوام ریاست کاساتھ دیں۔ جوخارجیوں کے خلاف ریاست کاساتھ نہیں دے گاوہ اپنے انجام کیلئے تیاررہے۔ شہدا ہمارے لئے باعث فخر،ان کاخون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ امیدہے کے پی عوام کیلئے افغانستان سے سیکیورٹی کی بھیک مانگنے کے بجائے خود حفاظت کرینگے ۔
اگر سمگلنگ ہوتی رہے گی تو اس کے ساتھ دہشتگرد اور دھماکہ خیز مواد بھی آئے گا۔ آپ لوگ چاہتے ہیں سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے کرپشن اور گورننس پر بات نہ ہو۔ اگر ایسا نہیں کرناتو پھر سہولت کار افواج پاکستان کے ایکشن کیلئے تیار ہوجائیں۔ افغان حکومت سے کہاہے اپنی سرزمین ہمارے خلاف دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہونے دیں۔ ہم نے کہا ہے اپنی ریاست کو دہشتگردوں کی آماجگاہ نہ بننے دیں۔ پاکستان کی علاقائی خودمختاری کیلئے جو کرناپڑا کریں گے۔ افغانستان اپنی سرزمین کو نان سٹیٹ ایکٹرز کی آماجگاہ نہ بننے دے۔
سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے بھی افغانستان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ افغانستان میں ہردہشتگرد گروہ کی کوئی نہ کوئی شاخ موجود ہے۔ افغانستان سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ اپنی سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دے۔ قومی ادارے کسی سیاسی شعبدے بازی سے متاثر نہیں ہوں گے۔ منفی سیاست، الزام تراشی، خارجی مافیا کی سہولت کارکے بجائےاپنا فرض ادا کریں۔
دہشتگردوں اورانکے سہولتکاروں پر زمین تنگ کردی جائے گی۔ فوج کا لیگل پراسیس بہت منصفانہ ہے۔ کسی کے خلاف قانونی کارروائی میں دفاع کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔
تمام قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں ،سول وکیل کی اجازت ہوتی ہے۔ کورٹ مارشل کا لیگل پراسیس جاری ہے جس کا منطقی انجام ہو گا ۔ کیا پاکستان میں ہتک عزت کے کسی ایسے کیس کی مثال دی جاسکتی ہے؟برطانیہ کی عدالت نے کل جھوٹے بیانیے پر فیصلہ سنایا۔ عوام کی حفاظت کیلئے جو اقدامات ہونے چاہئیں کیے جارہے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے۔ ہمارے لئے تمام سیاسی پارٹیزاور سیاستدان قابل احترام ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں۔ فیلڈجنرل کورٹ مارشل میں تاخیر کی پرواہ نہیں،انصاف کے تقاضےپورے ہونگے۔
فوج کا ریاست کیساتھ ذاتی یا سیاسی نہیں بلکہ سرکاری تعلق ہوتا ہے۔ ریاست کیساتھ فوج کے سرکاری تعلق کو جو سیاسی بناتا ہے وہ غلط ہے ۔
رواں برس مارے جانے والے خارجیوں کی تعداد گزشتہ 10 سال سے زیادہ ہے۔ ہم دہشتگردی کے ناسور سے نبرد آزما ہیں لیکن ہم سب کو مل کر دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔ افواج پاکستان کی جانب سےتجدید عزم کرنے آیا ہوں، کے پی کے غیور عوام میں بیٹھ کر دہشتگردی کیخلاف جنگ کا احاطہ کرنا ہے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2016 سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کیا اور ایک پر امن خیبرپختونخوا کے خواب کی تکمیل کے قریب پہنچ گئے۔انہوں نے کہا کہ مگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون اور اپنی قربانیوں کے ذریعے بھگت رہے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ان عوامل کو جاننا ضروری ہے جن کی وجہ سے آج دہشت گردی موجود ہے، انہوں نے دہشت گردی ختم نہ ہونے کی 5 بنیادی وجوہات بھی بیان کیں۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا۔دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو اس سیاست میں الجھانا۔بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا۔افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی۔مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے خیبرپختونخوا کے غیور عوام کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کے تجدید عزم کے لیے آیا ہوں، دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے عزم کی تجدید کرتےہیں۔ ہم سب نے مل کر دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔
احمد شریف چوہدری نے صوبے میں انسداد دہشتگردی آپریشن کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 2024 کے بعد خفیہ اطلاعات پر 14 ہزار 535 آپریشنز کیے، یومیہ بنیاد پر کیے گئے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کی تعداد 40 بنتی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں 2025 کے دوران 15 ستمبر تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جا چکے ہیں جن کی یومیہ تعداد 40 بنتی ہے جن میں 917 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا جا چکا ہے، جن یومیہ شرح 3.5 بنتی ہے۔انہوں نے کہاکہ 2024 میں آپریشن کے دوران 769 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا، جن کی یومیہ تعداد 2.1 بنتی ہے، ان آپریشنز کے دوران 577 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں پاک فوج کے 272 بہادر افسران اور جوان، پولیس کے 140 جبکہ 165 معصوم پاکستانی شہری شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ رواں سال خیبر پختونخوا میں آپریشنز کے دوران 516 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جس میں پاک فوج کے 311 افسران و جوانان، پولیس کے 73 اہلکار اور 132 معصوم شہری شامل ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں 2025 کے دوران 15 ستمبر تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جاچکے ہیں جن کی یومیہ تعداد 40 بنتی ہے جن میں 917 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا جاچکا ہے، جن یومیہ شرح 3.5 بنتی ہے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔ خیبر پختونخوا میں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، گمراہ کُن بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ 2 سال میں 30 کے لگ بھگ خودکش بمبار مارے گئے ان کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ہم خیبر پختونخوا پولیس کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو غزوات نہ ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ 2021 میں تمام سیاسی جماعتیں پشاور میں بیٹھیں اور ایکشن پلان بنایا، ‏14 نکات میں شامل تھا کہ آپ دہشتگردوں اور خوارج کو ماریں گے۔ دہشتگردی میں اضافے کی وجوہات نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا ہے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دہشتگردوں کے پیچھےگٹھ جوڑ کو مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، آج یہ بیانیہ کہاں سے آ گیا کہ افغانوں کو واپس نہیں بھیجنا تو کیا آپ 2014 میں غلط تھے، 2021 میں غلط تھے۔ آج ریاست کہہ رہی ہے کہ افغان بھائیوں کو واپس بھیجیں تو سیاست کی جاتی ہے، بیانات بنائے جاتے ہیں، گمراہ کُن باتیں کی جاتی ہیں۔
ریاست آئین اور قانون کی روشنی میں فیصلہ سازی جاری رکھے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر سطح پر جاری ہے، کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں قوم کا سرمایہ ہیں۔ قانون سب کے لیے برابر ہے، کسی کو استثنا حاصل نہیں۔ اداروں کو آئینی دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔سیاسی انتشار سے قومی سلامتی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔ دہشت گرد عناصر کو کچلنے کے لیے آپریشنز جاری ہیں۔
سیاسی قیادت کو قانون کے دائرے میں رہ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ کے پابند ہیں۔ امن و امان کے قیام کے لیے تمام ادارے متحرک ہیں۔ غیر آئینی اقدامات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عوام کا اعتماد صرف شفاف انصاف سے بحال ہو سکتا ہے۔ بلیک ڈے کے واقعات کی تحقیقات شفاف انداز میں جاری ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انتشار پھیلانے والوں کے خلاف ریاستی مشینری متحرک ہے۔ ہر شہری کو آئین و قانون کا احترام کرنا ہوگا۔ خیبر پختونخوا میں دہشتگردوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں جاری ہیں۔ ہائبرڈ جنگ اور سازشوں کے خلاف قوم یکجا ہو کر مقابلہ کرے گی۔ کسی فرد یا گروہ کو ریاستی اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں۔ علمائے کرام واضح انداز میں بتا چکے ہیں کہ تکفیر اور خود ساختہ فتویٰ قابل قبول نہیں۔ بے گناہ مسلمانوں کو کفر کا فتویٰ دے کر قتل کروانا شرع و قانون دونوں کی مخالفت ہے۔ قانون کا نفاذ صرف اور صرف مجاز ریاستی اداروں کا دائرہ کار ہے۔
سیاسی مقاصد کیلئے لوگوں کو گمراہ کرنا ملک و قوم کے مفاد کیخلاف ہے۔ ہم 25 کروڑ عوام خود اپنے قدموں پر کھڑے رہ کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے۔ بچوں اور عورتوں کا مستقبل کسی انتہاپسند نظریہ کے ہاتھوں نہیں چھوڑا جائے گا۔ قوم کی بقا آئین، قانون اور ریاستی نظم کی مضبوطی میں مضمر ہے۔ کسی بھی خودساختہ اقدام سے خانہ جنگی اور انتشار کے امکانات بڑھتے ہیں۔ سڑکیں، محلے اور عوامی جگہیں عوامی تحفظ کے احترام میں رہیں گی۔
کسی گروہ کو عام لوگوں کو بھڑکانے یا تشدد کی ترغیب دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر ہے، عوام تعاون کریں۔ سرحدی مسئلوں میں خارجی مداخلت ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔قانون کے خلاف ہر اقدام ریاستی نظم و نسق کے لیے خطرہ ہے اور برداشت نہیں ہوگا۔ ہم اپنا دفاع آئینی، قانونی اور منظم طریقے سے کریں گے، انتشار قبول نہیں۔

حق آگیا، باطل مٹ گیا، قوم نے فیصلہ کر لیا ہے۔ شہدا کی قربانیاں قوم کی آزادگی کا سرچشمہ ہیں۔ ہم حق کیلئے کھڑے ہیں، ذاتی یا سیاسی مفادات کیلئےنہیں۔
25کروڑ عوام نے خود اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کا عہد کیا ۔ کسی شخص یا گروہ کو ریاست سے بالاتر قرار دینا قبول نہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف قومی عزم غیر متزلزل ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا ازسرنو جائزہ ضروری ہے۔ ریاستی ادارے غیر جانبدار رہیں، سیاسی استعمال برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آئین و قانون کے آگے ہر ادارہ جوابدہ ہے، کوئی فوقیت نہیں۔
خارجی مداخلت اور نان سٹیٹ ایکٹرز کا روایتی خطرہ برقرار ہے۔ خاندانوں، بچوں اور خواتین کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ خودساختہ فتویٰ اور تکفیر معاشرتی انتشار کا سبب بنتے ہیں۔ علما اور مشائخ کا اتحاد قومی ہم آہنگی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ قانون اپنے ہاتھ میں لینے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ سرحدی مسئلے اور ہائبرڈ وار کے خلاف متوازن پالیسی ضروری ہے۔
سول اور عسکری اداروں کے درمیان واضح آئینی حدود احیا ہونی چاہئیں۔ پالیسی میکنگ میں شفافیت، عوامی اعتماد کی ضمانت ہے۔ سوشل میڈیا ریگولیشن کا مقصد آزادی کا خاتمہ نہیں، ذمہ داری ہے۔ سیاسی اختلافات کا حل جمہوری و قانونی طریقہ کار سے ہی ممکن ہے۔
ہماری ترجیح امن، استحکام اور آئینی نظام کی حفاظت ہے۔ شہدا کے خون کا تقاضا ہے کہ ہم قانون و آئین کو مضبوط کریں۔ افغانستان کی صورتحال سے امید کے برعکس نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
ملک دشمن عناصر کو سوشل میڈیا اور سیاسی بیانات کے ذریعے سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز بھرپور انداز میں جاری ہیں۔ 25 سال سے جاری ہائبرڈ جنگ کے اثرات کا قومی ادارے ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی نیٹ ورکس کے روابط پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ بھارت اور افغانستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں کی پشت پناہی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ریاستی بیانیہ شفاف، دوٹوک اور قومی مفاد پر مبنی ہے۔ فوجی قیادت نے ہر سوال کا مدلل اور واضح جواب دیا۔ قومی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کا سدباب ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ ملک دشمن بیانیے کو جمہوریت یا آزادیٔ اظہار کے پردے میں چھپنے نہیں دیا جائے گا۔
علاقائی امن کے لیے پاکستان کا کردار تعمیری اور ذمہ دارانہ ہے۔ داخلی استحکام کے بغیر خارجی دباؤ کا مؤثر مقابلہ ممکن نہیں۔ قوم کو تقسیم کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائی جائے گی۔ ریاست اور عوام ایک پیج پر، دشمن کے عزائم ناکام ہوں گے۔ ریٹائرڈ افسران کی رائے اور تجربہ ملکی مفاد کے لیے قیمتی اثاثہ ہے۔ قومی بیانیے کی بنیاد آئین، قانون اور عوامی امنگوں پر ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے ماضی میں بھی جانیں قربان کیں، آج بھی تیار ہیں۔

مزید پڑھیں :ٹرمپ کی خواہش پوری نہ ہوسکی،نوبیل انعام ماریہ کورینہ کے نام

متعلقہ خبریں