اسلام آباد ( اے بی این نیوز )قطر کے دارالحکومت دوحا میں اسرائیلی فوج کی کارروائی نے مشرق وسطیٰ کی فضا کو مزید کشیدہ کر دیا ہے، جہاں حماس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور سینئر رہنما خلیل الحیہ شہید ہو گئے۔ اسرائیلی فوج نے اس آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ داخلی سیکیورٹی ایجنسی شن بیت کے تعاون سے کیا گیا اور اس کا ہدف وہ قیادت تھی جسے 7 اکتوبر کے حملے کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق یہ کارروائی اس وقت ہوئی جب حماس کا مذاکراتی وفد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے غزہ جنگ بندی منصوبے پر غور کر رہا تھا۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے تازہ فضائی حملوں نے بھی انسانی المیہ مزید بڑھا دیا ہے جہاں کم از کم 35 افراد شہید ہوئے جن میں وہ شہری بھی شامل تھے جو امداد کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ایک اور بلند رہائشی عمارت زمین بوس ہو گئی جس سے سیکڑوں خاندان بے گھر ہو گئے۔قطر پر اسرائیلی حملہ،پاکستان، سعودی عرب، ایران اور اقوام متحدہ کی شدید مذمت کی ہے۔
اس واقعے کے بعد عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ پاکستان نے قطر پر بمباری کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ معصوم شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان قطر اور فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی میں کھڑا ہے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرتا رہے گا۔
سعودی عرب نے بھی دوحا پر حملے کو کھلے عام غاصبانہ اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری اقدامات اٹھائے تاکہ خطے میں امن و استحکام کو مزید نقصان نہ پہنچے۔ ایران نے اس حملے کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قطر اور فلسطینی مذاکرات کاروں کی خودمختاری پر براہِ راست حملہ ہے، جو خطے کے لیے ایک سنجیدہ پیغام ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، کیونکہ وہ ایک ایسا ملک ہے جو جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب فریقین کو مستقل جنگ بندی کی کوشش کرنی چاہیے، نہ کہ اسے کمزور کرنے کے اقدامات۔
قطر نے خود بھی اسرائیلی جارحیت کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ حملہ صرف حماس قیادت پر نہیں بلکہ قطر میں رہنے والے شہریوں اور خطے کے امن پر براہِ راست خطرہ ہے۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق حملے کے وقت وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیرِ دفاع کاٹز شن بیت کے ہیڈکوارٹر میں موجود تھے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کارروائی اعلیٰ سطح پر مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پیش رفت مشرق وسطیٰ میں ایک نئے بحران کو جنم دے سکتی ہے، جہاں پہلے ہی غزہ جنگ اور انسانی بحران نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
مزید پڑھیں :حکومت کیسے گھٹنے ٹیکے گی،عمران خان نے نیا سیاسی فارمولہ دے دیا حکمت عملی کا رخ تبدیل ،جا نئے کیا