اسلام آباد ( اے بی این نیوز )ملک کے مختلف علاقوں میں حالیہ دنوں شدید بارشوں اور برفانی پانی کے بہاؤ کے باعث دریاؤں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں کئی مقامات پر درمیانے اور اونچے درجے کے سیلاب کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور دیگر بالائی علاقوں میں نہ صرف دریا بپھر گئے ہیں بلکہ نشیبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہونے لگا ہے، جس سے مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
میلسی میں دریائے ستلج کے پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ہیڈ گنڈا سنگھ پر پانی کی آمد اور اخراج 64 ہزار 554 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ ہیڈ سلیمانکی پر پانی کی آمد 44 ہزار 335 اور اخراج 34 ہزار 715 کیوسک ہے۔ ہیڈ اسلام پر 24 ہزار 207 کیوسک پانی کی آمد و اخراج جاری ہے اور ہیڈ سائفن پر بھی پانی کا بہاؤ 19 ہزار 649 کیوسک تک پہنچ چکا ہے۔ ان علاقوں میں نچلے درجے کے سیلاب کی صورتحال موجود ہے اور حکام نے نشیبی علاقوں کے رہائشیوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔
خیبر پختونخوا میں وادی سوات کی صورتحال مزید تشویشناک ہو چکی ہے۔ منڈا ہیڈورکس پر پانی کا بہاؤ 76 ہزار 250 کیوسک تک بڑھ گیا ہے جس سے درمیانے درجے کا سیلاب پیدا ہو گیا ہے۔ سوات کے مختلف علاقوں میں ندی نالے بپھر چکے ہیں، مساجد میں سیلابی الرٹ کے اعلانات کیے جا رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ نے مینگورہ سمیت دیگر متاثرہ علاقوں میں ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔ کئی مقامات پر پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہے اور ریسکیو ٹیمیں مسلسل امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
گلگت بلتستان کے ضلع دیامر، خصوصاً چلاس کے علاقے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ بونر نالہ، تھور نالہ، بٹوگاہ اور بابوسر کے مقام پر سیلابی صورتحال کی وجہ سے اب تک دو افراد لاپتہ اور دو زخمی ہو چکے ہیں۔ پولیس کے مطابق لاپتہ ہونے والے بچوں کی شناخت اسلام الدین (11 سال) اور افسانہ (15 سال) کے طور پر ہوئی ہے، جو بہن بھائی ہیں۔ بونر نالے کے قریب سیلاب نے واٹر چینل اور بجلی کی ترسیل کے نظام کو تباہ کر دیا ہے، جبکہ شاہراہ قراقرم کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ متاثرہ مسافروں کو کوہستان کے محفوظ مقامات پر روک دیا گیا ہے، تاہم کچھ راستے بحال کر دیے گئے ہیں۔
بونیر کے علاقے پیر بابا میں بھی اونچے درجے کا سیلابی ریلہ آیا ہے، جس نے بازار اور رہائشی علاقوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر نقصان کے خدشے کے پیش نظر صوبائی حکومت سے فوری مدد کی اپیل کی ہے۔ پانی گھروں میں داخل ہونے سے لوگ شدید پریشان ہیں اور متعدد خاندان نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
بٹگرام کی صورتحال سب سے المناک ہے، جہاں یو سی شملائی تھوڑ کے مقام پر سیلابی ریلہ کئی افراد کو بہا لے گیا۔ اب تک 11 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ 30 سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ ریسکیو ٹیمیں، مقامی رضاکار اور انتظامیہ امدادی سرگرمیوں میں مسلسل مصروف ہیں۔ علاقے میں بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کے باعث مزید سیلابی خطرات موجود ہیں۔
دریائے سندھ میں چشمہ بیراج پر درمیانے درجے کا سیلاب جاری ہے، جبکہ تربیلا، کالا باغ اور تونسہ بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دریائے چناب میں مرالہ بیراج پر پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوئی ہے، مگر ہیڈ خانکی پر پانی کی سطح بڑھ رہی ہے۔ دریائے ستلج اور دریائے راوی کے کئی مقامات پر پانی کی سطح بلند ہے، مگر صورتحال فی الحال قابو میں ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق تربیلا ڈیم 96 فیصد اور منگلا ڈیم 67 فیصد بھر چکا ہے۔ تربیلا کا موجودہ لیول 1546.50 فٹ جبکہ منگلا ڈیم کا لیول 1209.35 فٹ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ حکام نے تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے اور عوام کو بروقت معلومات فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
مزید پڑھیں :100 روپے کے انعامی بانڈ جیتنے والوں کی مکمل فہرست