اسلام آباد(رپورٹ: محمد ابراہیم عباسی)ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، صحت اور وطن واپسی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی، جس میں وفاقی حکومت کو عدالتی احکامات کے باوجود رپورٹ پیش نہ کرنے پر توہین عدالت کے نوٹسز جاری کرنے اور وزیر اعظم سمیت وفاقی کابینہ کو عدالت طلب کرنے کا عندیہ دیا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر وفاقی حکومت کی رپورٹ میری عدالت میں پیش نہ کی گئی تو پوری کابینہ کو بلاؤں گا، عدالت صرف وفاقی کابینہ ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کرے گی۔
وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشد حفیظ عدالت میں پیش ہوئے اور مزید مہلت کی استدعا کی، جس پر عدالت نے پانچ ورکنگ دنوں کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 21 جولائی تک ملتوی کر دی۔عدالت میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق نے ایک متفرق درخواست بھی دائر کی، جس میں وزیر اعظم اور کابینہ سے ملاقات کی اجازت مانگی گئی۔
جسٹس اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے:فوزیہ صدیقی وزیر اعظم سے مل کر کیا کریں گی؟ کیا وزیر اعظم کو صورتحال کا علم نہیں؟
سماعت کے بعد سابق سینیٹر مشتاق احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ:آج عدالت میں ثابت ہو گیا کہ شہباز شریف اور اس کے اتحادی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ حکومت نہ صرف رہائی میں رکاوٹ ڈال رہی ہے بلکہ وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ امریکہ میں عدالت کو نوٹ بھیجا جائے کہ پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی چاہتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت پاکستان نے نہ صرف نوٹ جمع کرانے سے انکار کیا بلکہ اس پر سپریم کورٹ سے حکمِ امتناع لینے کی بھی کوشش کی۔مزید کہا:یہ بدترین قسم کی امریکی غلامی ہے، جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ عافیہ صدیقی کو دو گولیاں ماری گئی ہیں، ان کے قتل کی کوشش کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی سی ایل کےسابقہ ملازمین پنشن کے مکمل حقدار ہیں،سپریم کورٹ