اسلام آباد( اے بی این نیوز )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
اے بی این نیوز کے مطابق دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اکسیویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیس کا بھی ذکر ہے، پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے دو اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، جی ایچ کیو حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ کیا 9 مئی کا جرم ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کل دی جانے والی آبزرویشن پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی، کل خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں، اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا، مجھے میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستگی ضروری ہے،انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ ججز نے مجھے فون کرکے کہا یہ تم نے کیا بول دیا؟ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، کہنا چاہ رہا تھا فیصلے کو 2 افراد کسی محفل میں کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے مزید کہا کہ اکسیویں ترمیم کے فیصلے میں واضح ہے کہ فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، سویلنز کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ ٹرائل کے لیے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اکسیویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیس کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے 2 اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا 9 مئی کا جرم ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟۔
خواجہ حارث نے کہا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشت گرد مارے گئے تھے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ یہ کون تھے کہاں سے اور کیسے آئے؟ کیا دہشت گردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی؟۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تحقیقات یقینی طور پر ہوئی ہوں گی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اکسیویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ انہی تمام حملوں کی بنیاد پر ترمیم کی گئی تھی کہ ٹرائل میں مشکلات ہوتی ہیں، کامرہ بیس پر حملے کے ملزمان کا کیا ہوا؟ ان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟
خواجہ حارث نے موقف اپنایا اس پر ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ہم بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا رہے ہیں،بلوچستان حکومت کے وکیل سکندر مہمند نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا آپ بلوچستان حکومت کی وکالت کیسے کر سکتے ہیں؟جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کوئی قانون بتا دیں کہ نجی وکیل کسی حکومت کی نمائندگی کیسے کرتا ہے؟
سکندر بشیر نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں حکومت کو نجی وکیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے نجی وکیل ہی کرنے ہیں تو ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بند کر دیں، پہلے تو بلوچستان حکومت کو اپنا حق دعویٰ ثابت کرنا ہوگا، صوبائی حکومت کا اس معاملے سے کیا لینا دینا؟، پہلے یہ بتانا ہوگا۔پنجاب حکومت، وزارت داخلہ، وزارت قانون اور شہدا فاؤنڈیشن نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے، خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ خیبرپختونخوا حکومت اپیل واپس لے چکی ہے۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ میں آئین کا آرٹیکل آٹھ 3 پڑھنا چاہوں گا، یہاں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کو آرٹیکل آٹھ میں بنیادی حقوق سے مستثنی کیا گیا، آرٹیکل آٹھ تین میں آرمڈ فورسز کے ممبرز کا ذکر ہے، آئین سازوں نے آرمد فورسز کے ممبرز کا ذکر کر کے سب واضح کر دیا، واضح ہو گیا اس قانون کا اطلاق عام شہریوں پر نہیں ہے، اگر عام شہریوں کے لیے گنجائش چھوڑنا ہوتی تو الفاظ مختلف ہوتے۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا پھر آرٹیکل آٹھ تین میں ممبرز آف آرمڈ فورسز کے بجائے صرف آرمڈ فورسز ہوتا۔
خواجہ احمد حسین نے جواب دیا جی بالکل، ممبرز کا ذکر آنے سے طے ہو گیا کہ عام شہریوں کا وہاں ٹرائل نہیں ہوگا، دوسرا نکتہ ہے کہ عام شہریوں کے اندر گٹھ جوڑ ہو تو ٹرائل ہو سکتا ہے، گٹھ جوڑ کے الفاظ بھی آئین یا قانون میں نہیں، صرف ایک فیصلے میں ہیں۔وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میرا مقدمہ یہ نہیں کہ ان ملزمان کو چھوڑ دیا جائے، مقدمہ صرف یہ ہے کہ سویلنز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا، کیوں حکومت کو سول عدالتوں پر اعتماد نہیں؟ 54 سال سے سویلینز کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے، جسے ختم ہونا چاہیے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی 9 مئی کے ملزم نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو پڑھا؟جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سویلینز اور یونیفارمڈ میں کیا کوئی فرق ہوتا ہے؟، فوجی سول جرم کرے تو اس کو تو سارے حقوق ملتے ہیں۔وکیل احمد حسین نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کو قانون سازی کے ذریعے ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا، عام شہریوں کو تو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ سویلین فوجی کے ساتھ مل کر جرم کرے تو کیا ٹرائل نہیں ہوگا؟وکیل نے موقف اپنایا کہ کل اگر تمام جرائم کو آرمی ایکٹ میں شامل کیا گیا تو کیا ہوگا؟ سویلینز کے ٹرائل کو درست کہنے کے لیے کہنا ہوگا کہ تمام بنیادی حقوق اس ٹرائل میں محفوظ ہیں۔فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کل بھی دلائل کل جاری رکھیں گے۔
مزید پڑھیں: کراچی کا شہری امریکی خاتون سے شادی کیلئے تیار،شرط رکھ دی