اہم خبریں

جسٹس مسرت ہلالی نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے پیش کئے گئے ریکارڈ میں غلطی پکڑ لی

اسلام آباد ( اے بی این نیوز      )فوجی عدالتوں کے کیس میں سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے پیش کئے گئے ریکارڈ میں غلطی پکڑ لی۔ کہا جس ملزم کو سزا سنائی گئی ہے اس کے خلاف تمام دفعات پاکستان پینل کوڈ (PPC) کے تحت لگائی گئیں۔ اس کا ملٹری ٹرائل کیسے کیا گیا؟بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے جسٹس مسرت ہلالی کو سوال کرنے سے روک دیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے کوئی مجھے سوال کرنے سے نہیں روک سکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریکارڈ سے یہ انکشاف بھی کیا کہ ملٹری ٹرائل میں ایک ایسے ملزم کو عینی شاہدین میں شامل کیا گیا جس نے بعد میں کہا وہ چشم دید گواہ نہیں۔فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل ۔ خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا۔

ملٹری ٹرائل کی سات کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو دی گئیں۔ آئینی بینچ کے 6 ججز نے ٹرائل کا ریکارڈ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو واپس کردیا۔ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے دلائل میں کہا عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے۔ ٹرائل سے قبل پوچھا گیا کسی کو لیفٹیننٹ کرنل عمار احمد پر کوئی اعتراض تو نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ اگر کوئی فیصلہ ہو تو کیا آرڈر کے خلاف کوئی ریمیڈی کر سکتے ہیں۔

مطلب اس میں بھی وہی سزائیں ہوتی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پہلے تفتیش ہوتی ہے پھر چارج ہوتا ہے۔ اگر اعتراف نہ کرے تو پھر کیا طریقہ کار ہو گا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں بھی کیس وہی چلے گا۔ ۔ ۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہامیرا سوال گزشتہ روز بھی یہی تھا کہ کیا تفتیش چارج سے پہلے ہوتی ہے۔ ۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا قانون میں واضح ہے کہ ٹرائل اور فیئر ٹرائل میں کیا فرق ہے۔ چارج فریم ہونے کے بعد شامل تفتیش کیا جاتا ہے۔ سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
مزید پڑھیں :ہمیں مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے پاس ججز کی تعداد محدود ہے، جسٹس منصور علی شاہ

متعلقہ خبریں