اہم خبریں

قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ ججز کی تعداد اور سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں ترمیمی بل کی منظوری

اسلام آباد(  اے بی این نیوز      ) قومی اسمبلی کے اجلاس میں سپریم کورٹ ججز کی تعداد کو 17 سے بڑھا کر 34 کرنے کے بل کو منظور کرلیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون، اعظم نذیر تارڑ، نے اس بل کو پیش کیا، جس میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافہ اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قوانین میں ترامیم شامل تھیں۔ وزیر قانون نے ایوان کو بتایا کہ بار کونسلز کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ عدالت کے ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ مقدمات کا بروقت فیصلہ ممکن ہو سکے۔ بل کی منظوری کے بعد، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے علاوہ ججز کی تعداد اب 33 ہو گی۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل پر اپوزیشن کا احتجاج

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیے جانے پر اپوزیشن نے ایوان میں شدید احتجاج کیا۔ اپوزیشن اراکین نے اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کے دوران، سارجنٹ ایٹ آرمز کو مداخلت کرنا پڑی تاکہ حالات کو قابو میں لایا جا سکے۔ ہنگامہ آرائی کی شدت کے باعث ایوان میں ایک مچھلی منڈی کا منظر دیکھنے میں آیا۔

سروسز چیفس کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کا بل

وزیر دفاع خواجہ آصف، نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952، نیوی ایکٹ 1961، اور ایئر فورس ایکٹ 1953 میں ترامیم کے بل پیش کیے، جنہیں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ ان ترامیم کے مطابق، تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت کو 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت، آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی، یا توسیع کی صورت میں ان کی خدمات بطور جنرل جاری رہ سکیں گی۔

ایوان میں ہاتھا پائی اور نعرے بازی

اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان ہاتھا پائی اور شدید نعرے بازی دیکھنے میں آئی۔ اپوزیشن اراکین نے “مریم کا پاپا چور ہے” جیسے نعرے لگائے جبکہ حکومتی اراکین نے “علیمہ باجی چور ہے” کے نعرے سے جواب دیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور پی ٹی آئی کے شاہد خٹک کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی، جس کے بعد بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔

سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کی تجویز

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھا کر 34 کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ ان کے مطابق، بار کونسلز کی جانب سے ججز کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جارہا تھا، تاکہ مقدمات کی بڑھتی تعداد کو موثر طریقے سے نمٹایا جا سکے۔ وزیر قانون نے واضح کیا کہ اس تجویز پر بات چیت کے لئے اپوزیشن کو بھی حکومتی موقف سننا ہوگا۔

آئینی عدالت کے قیام کے لئے ججز کی ضرورت

وزیر قانون نے مزید کہا کہ حالیہ دنوں میں آئینی عدالت قائم کی گئی ہے جس کے لئے مزید ججز کی ضرورت ہے۔ اس تجویز کے بعد، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے علاوہ ججز کی تعداد 33 ہو جائے گی۔ انہوں نے “اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ ترمیمی بل 2024” بھی اسمبلی میں پیش کیا۔

آرمی ایکٹ میں ترامیم

دوسری طرف، وزیر دفاع خواجہ آصف نے “آرمی ایکٹ 1952” میں ترمیم کا بل پیش کیا جس کے تحت تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت کو 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کرنے کی تجویز دی گئی۔ اس بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، اور یہ اصول بنایا گیا کہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت میں وہ بطور جنرل اپنے فرائض انجام دیتا رہے گا۔

قانون سازی کے دوران اپوزیشن کا احتجاج

ایوان میں ہونے والی قانون سازی کے دوران اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اور پی ٹی آئی کے رکن شاہد خٹک کے درمیان تلخ کلامی اور ہاتھا پائی کی صورتحال بھی پیش آئی۔

ایوان کی کارروائی میں تاخیر اور مزید اقدامات

سردار ایاز صادق کی صدارت میں اسپیکر قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز مقررہ وقت سے 2 گھنٹے 40 منٹ کی تاخیر سے ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق “پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈینینس” ایوان میں پیش کیا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا اعلان
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اعلان کیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 34 تک بڑھانے کا بل منظور کرلیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت چیف جسٹس پاکستان کے علاوہ اب سپریم کورٹ میں 33 ججز ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت کے قیام کے لیے بھی اضافی ججز کی ضرورت تھی، جس کے پیش نظر یہ اضافہ کیا گیا ہے۔
اس بل کی پیشی کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور ایوان میں “نو نو” کے نعرے لگائے۔ وزیر قانون نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک ایوان میں پیش کی جس پر بھی اپوزیشن ارکان کی جانب سے مخالفت سامنے آئی۔وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان نیوی ایکٹ 1961، اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 میں ترامیم پیش کی گئیں جنہیں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ ان ترامیم کے تحت تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت پانچ سال مقرر کر دی گئی ہے۔

آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور توسیع کے قواعد
بل میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا۔ آرمی چیف کو تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت میں بطور جنرل کام کرنے کا اختیار ہوگا۔
مزید پڑھیں :اداروں کو بے تحاشہ اختیارات دیئے جارہے ہیں جس کا نقصان ہوگا،مولانا فضل الرحمان

متعلقہ خبریں