کراچی ( اے بی این نیوز )میثاق جمہوریت کے مطابق ریفارمز لے کر آئیں گے۔ ہم عدالتی نظام کو طاقتور بناناچاہتے ہیں۔ قانون سازی اور آئین سازی عدالت کے تحت نہیں ہوسکتی۔ وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس روٹیشن پر ہوگا۔ ہر صوبے کو اپنے چیف جسٹس کے نمائندے کی باری ملے گی۔
آپ مانتے ہیں عدالتوں میں بہت کیسزالتواکاشکار ہیں۔ 15فیصدکیسز آئین اور قانون سے متعلق ،باقی عام آدمی کے کیسز ہیں۔ 15فیصد سیاسی کیسز میں90فیصدٹائم دیاجاتا ہے۔
چاہتے ہیں عوام کوانصاف دلائیں تو انہیں وہ کام کرنے دیں۔
آئینی سیاسی فیصلے کےلئے آئینی وفاقی عدالت ضروری ہے۔ آئینی عدالت آئین اورسیاسی کیسز دیکھے گی،۔ آئینی عدالت،جوڈیشل ریفارمز کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ جن کی تاریخ اپریل2021سے شروع ہوتی ہے ان کیلئے نئی بات ہے۔
جن کی تاریخ1973سے شروع ہوتی ہے ان کیلئے پرانی بات ہے۔ 19ویں آئینی ترمیم عدالت کی دھمکی کی وجہ سے آئی۔ قانون اور آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔
ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے۔
ہم آئینی عدالت اس لئے بنائیں گے تاکہ اس قوم کو انصاف ملے۔ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔ 58ٹوبی کی پاور عدالت نے اپنے پاس رکھی ہے۔ نوازشریف، یوسف گیلانی پر عدالت نے وہ طاقت استعمال کی۔
پی ٹی آئی حکومت کیخلاف تحریک چلاتے وقت سب نے کہا عدالت جائیں۔ پی پی کا موقف تھا عدالتی58ٹوبی کے اختیار کیساتھ اسے گھر نہیں بھیجنا چاہتے۔ ہماراموقف تھا پارلیمان پر زور دیں عدم اعتماد واحد آئینی طریقہ ہے۔
ہم 63اے کی ترمیم لیکر آئے کہا ہر ممبر بجٹ ،آئینی ترمیم اور عدم اعتماد پر پارٹی لائن کا پابند ہے۔ ترمیم تھی ممبر پارٹی لائن فالو نہیں کرنا چاہتے تو ووٹ ڈالنے کا اختیار ہے۔ ہم نے یہ لائن اس لئے لکھی تھی تاکہ پارلیمنٹیریز کے خلاف جائے تو کوئی سزا ۔
تین مواقع پر اگر ممبر پارٹی لائن توڑیں گے تو وہ واپس عوام کے پاس جائیں گے۔ جو کوئی رات کے اندھیروں میں کام کرتے ہیں ایسے سوالوں کا جواب نہیں دیتے۔ آپ فلو ر کراسنگ کیخلاف ہوسکتے ہیں ہم بھی یہ ترمیم لیکر آئے تھے۔
اس سے پہلے کوئی آئینی پابندی نہیں تھی۔ امریکہ، برطانیہ کا نظام اٹھا کر دیکھ لیں کسی پارلیمٹنیرین پر کوئی پابندی نہیں۔ 63اے کا جب فیصلہ کیاجارہاتھاتو کیا کسی نے آئین پڑھا؟ کسی نے سوچا کتنا بڑافیصلہ سنانے جارہے ہیں کسی سے پوچھ لیں۔
عدالت نے اختیاراپنے پاس لے لیا، آئین میں ترمیم وہ کرسکتے ہیں ہم نہیں۔ عدالت نے63اے میں ترمیم کرائی جو آپ نے لکھاوہ نہیں ہے۔ فیصلہ تھا پارٹی لائن کیخلاف ووٹ نہیں دوگےاگر دیا توگنانہیں جائے گا۔
بتایاجائے کون سے آئین، قانون اور رول آف لا کے مطابق فیصلے دیئے جارہے ہیں۔ آپ کہتے ہو ججز میں اضافہ کررہے ہیں، سو بسم اللہ میں چاہتاہوں۔ آپ نے 18اویں ترمیم کے مطابق جو ترمیم کی اس کے مطابق نہیں ہمارے آئین کے مطابق ترمیم کریں۔ آئینی عدالت بنا کر رہیں گے تا کہ ملک کے عوام کو انصاف مل سکے۔
مزید پڑھیں :پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج