اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے ممکنہ فوجی ٹرائل سے متعلق حکومت سے واضح موقف طلب کرلیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے آج سابق وزیراعظم عمران خان کی ممکنہ فوجی تحویل اور 9 مئی کے مقدمات سے متعلق ٹرائل روکنے کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ فوجی تحویل میں دینے کا طریقہ کار کیا ہے؟جس کے جواب میں وزارت دفاع کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو جواب دیا کہ ابھی تک فوجی حراست اور ٹرائل سے متعلق کوئی بات نہیں آئی۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر کوئی درخواست آئی تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔وزارت دفاع کے نمائندے نے کہا کہ میں نے فیلڈ جنرل کورٹ میں 50 سے زائد کیسز کیے ہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ شہریوں کو فوجی عدالتوں میں کیسے لے جاتے ہیں؟جواب میں وزارت کے نمائندے نے کہا کہ ملٹری اتھارٹی متعلقہ مجسٹریٹ کو مطلع کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس صورت میں اس کا کورٹ مارشل کیا جائے گا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ یہ کیسے طے کریں کہ کسی شخص پر فوجی ٹرائل ہوگا۔ جس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1)(d) میں کہا گیا ہے کہ سویلین پر بھی ملٹری ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ شہریوں کے فوجی ٹرائل سے متعلق طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے سول کورٹ چارج فریم کرے گی، اگر ٹرائل کورٹ کہتی ہے کہ کیس ملٹری کورٹ میں بھیجنا ہے، پھر حکومت کو نوٹس دے کر بھیجا جا سکتا ہے۔
جسٹس حسن اورنگزیب کی جانب سے کیس کی وضاحت طلب کرنے کے بعد وزارت دفاع نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے واضح بیان دینے کے لیے مہلت مانگ لی۔بعد ازاں عدالت نے حکومت سے واضح بیان طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ میں ملنے والے تحائف کی قیمت کا تخمینہ لگانے کا فیصلہ