اہم خبریں

آئی پی پیز کیساتھ کئے گئے معاہدے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتے، اویس لغاری

اسلام آباد(نیوزڈیسک) وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے سامنے واضح کیا کہ آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ یکطرفہ طور پر معاہدے ختم کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اس سے ریکوڈک کان کیس کے معاہدوں کی طرح اہم مالی جرمانے ہو سکتے ہیں۔

سیشن کے دوران، یہ بات سامنے آئی کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران، گیس اور مائع قدرتی گیس (ایل این جی) پر مبنی پاور پلانٹس نے صلاحیت کی ادائیگیوں میں 538 ارب روپے جمع کیے۔ اس دوران فرنس آئل پر مبنی پلانٹس کو 760 ارب روپے موصول ہوئے ہیں۔

کمیٹی کے چیئرمین محسن عزیز نےکہا کہ آئی پی پی کے تمام معاہدوں کا انکشاف کر دیا گیا ہے۔ ان کی کاپیاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کو بھی فراہم کی گئیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے آئی پی پیز کے لیے 15 سے 16 فیصد کے منافع کی منظوری دی،

ان کے اصل منافع کا مارجن 60 سے 70 فیصد کے درمیان بتایا گیا۔عزیز نے محمد علی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا، جس میں آئی پی پیز کی جانب سے اوور انوائسنگ کے مسائل اور ان پروڈیوسرز کے لیےہیٹ ریٹ کی انکوائریاں نہ ہونے کا بھی حوالہ دیا گیا ۔

سینیٹر سید شبلی فراز نے معاہدوں کی تفصیلات پر سوال اٹھایا کہ ان معاہدوں میں‌کون کون سی کمپنیاں شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کا منافع فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے منافع سے زیادہ ہے۔

جواب میں وزیر لغاری نے کہا کہ محمد علی رپورٹ میں آئی پی پیز کے لیے ’ہیٹ ریٹ آڈٹ‘ کی سفارش کی گئی تھی، جو ابھی تک زیر التوا ہے۔وزیر توانائی نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ مستقبل قریب میں ’مثبت‘ پیش رفت متوقع ہے۔
نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا

متعلقہ خبریں