لاہور(نیوز ڈیسک )لاہور ہائیکورٹ نے صحافیوں کو نوٹس بھیجنے کے خلاف درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے بدھ کو جواب طلب کر لیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے درخواست پر سماعت کی، اس دوران صحافیوں کی جانب سے بیرسٹر حسنین چودھری عدالت میں پیش ہوئے۔درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ نوٹس بھیجنے کے بعد صحافی ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے ایف آئی اے سے الزامات کی فہرست مانگی جو آج تک نہیں دی گئی۔ ایف آئی اے نے الزامات کی فہرست دیے بغیر اب 29 اگست کو یکطرفہ کارروائی کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے شہریوں کو طلب کر کے سارا دن بٹھا کر مذاق اڑاتی ہے۔ خطرہ ہے کہ اگر صحافی ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوا تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔
سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے صحافی کی درخواست کی مخالفت کی۔جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ایف آئی اے کے شہریوں کے ساتھ رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی کہے کہ ان پر کوئی الزامات ہیں تو ان الزامات کی فہرست دیں۔ اداروں کو کارروائی سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن قانون پر عمل کریں۔
جسٹس اسجد جاوید نے کہا کہ شہریوں کو بلا کر بٹھانا ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اور دیگر اداروں کی عادت بن گئی ہے۔ ادارے شہریوں کو بلا کر بٹھاتے ہیں کیونکہ انکوائریوں کو آگے بڑھانے کے لیے مواد نہیں ہوتا۔
عدالت نے ایف آئی اے کو دو ہفتوں میں تفصیلی جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے پہلے جواب عدالت میں جمع کرائے، پھر معاملہ دیکھیں۔بعد ازاں عدالت نے صحافیوں کو ایف آئی اے کے نوٹسز کے خلاف درخواست پر ایف آئی اے سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید کارروائی دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: ا سمگل شدہ گاڑیوں کو ریگولرائز کرنے کی افواہیں بے بنیاد،ایف بی آرکی وضاحت