اہم خبریں

مہنگائی کی شرح 11 فیصد تک آگئی، شرح سود میں کمی ہو ئی ،وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کر دیا

اسلام آباد ( اے بی این نیوز   )رواں مالی سال 2023,24 کا پیش کر دیا گیا۔ اقتصادی سروے اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی کی شرح 48 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آگئی ہے اور جلد یہ سنگک ڈیجٹ پر بھی آجا ئے گی۔ مہنگائی میں کمی ہی کی وجہ سے اسٹیٹ بنک نے بھی شرح سود میں کمی کی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی پلان بی نہیں تھا۔ اس کے پاس نہ جاتے تو آج اہداف کا تعین ہی نہ کرپاتے۔ رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ میں بڑی صنعتوں کی گروتھ اچھی نہ رہی۔

زراعت نے اچھا کردار ادا کیا ہے۔ لائیواسٹاک بھی بہتری رہی ہے۔ مالی سال 23-2022 میں شرح نمو 2 فیصد کم ہوئی تھی اور روپے کی قدر میں 29 فیصد کمی ہوئی۔ بلند شرح سود اور مہنگی توانائی کے سبب لارج اسکیل مینوفیکچرنگ متاثر ہوئی۔ رواں مالی سال ریونیو کلیکشن میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 50 کروڑ ڈالر تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ رواں مالی سال اہم معاشی اعشاریوں کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا۔ مالیاتی خسارہ ہدف سے تقریباً 20 فیصد زائد ریکارڈ کیا گیا۔ رواں مالی سال مہنگائی ہدف سے 3.5 فیصد زائد رہی۔ مہنگائی کا ہدف 21 فیصد تھا۔ اوسطاً مہنگائی 24.5 فیصد ریکارڈ۔ ٹیکس محصولات میں 30.8 فیصد۔ برآمدات 10.6 فیصد بڑھیں۔ درآمدات میں 2.4 فیصد کمی ہوئی۔

بیرونی سرمایہ کاری میں 8.1 فیصد اضافہ ریکارڈ۔ رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ زرعی شعبے کی گروتھ 6.25 اورصنعتوں کی گروتھ 1.21 فیصد ریکارڈ۔ 2022,23 کا جہاں اختتام ہوا وہیں جی ڈی پی گری۔ 2023,24 کا مالی سال شروع ہوا تو روپیہ 29 فیصد گراوٹ کا شکار ہوا۔ اسی دوران زرمبادلہ ذخائر بھی کم ہونا شروع ہوئے۔ مجھے حکومت میں آئے ہوئے ساڑھے تین ماہ ہوئے ہیں۔ رواں سال آئی ٹی سے 20 ہزار کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔ آئی ٹی کی برآمدات کا حجم 2 ارب 28 کروڑ ڈالر رہا۔ آئی ٹی کے شعبے میں 35 کروڑ ڈالر زرمبادلہ آیا۔ ملک میں 13 کروڑ 50 لاکھ افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ ٹیلی کام صارفین کی تعداد 19 کروڑ 46 لاکھ سے بڑھ گئی۔

ملک میں کل 263 یونیورسٹیاں ہیں۔ ملک میں خواندگی کی شرح 62.8 فیصد رہی۔ تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.5 فیصد حصہ خرچ ہوا۔ این ای سی نے گزشتہ روز کچھ فیصلے واپس لئے ہیں۔ نگران حکومت میں کچھ اقدامات لئے تھے جن کو واپس لیا گیا۔ رواں سال ایف بی آر کے محصولات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہم چاہیں تو محصولات کے تمام اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔ محصولات میں اضافے کیلئے انفورسمنٹ کا بھی کردار ہوگا۔ چین کے ساتھ سی پیک فیز ٹو کیلئے ری انگیجمنٹ ضروری تھی۔ سی پیک فیز ٹو کا مقصد اکنامک زونز کے قیام اور بزنس لانا ہے۔ چائنا کے ساتھ آئی پی پی قرضوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔ کچھ چیزوں کا آئی ایم ایف سے کوئی لینا دینا نہیں۔ زراعت کے شعبے میں فصلیں اگانا اور ان سے کمانا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ لائیو اسٹاک زرعی سروسز کا بہت زیادہ پوٹینشل ہے۔ ابھی چین سے آئے ہیں وہاں یہ سب ترقی کی وجہ ہے۔ جتنا ہم حکومت کو جس جس چیز سے نکال سکیں وہ بہتر ہوگا۔

چاول کی فصل گروتھ دے رہی ہے دیگر ممالک جا رہا ہے۔ حکومت پاسکو میں اصلاحات کا اغاز کرنے جا رہے ہیں۔ پاسکو کی ری اسٹرکچنگ سے حکومت کا کردار ختم ہوگا۔ ایف بی آر میں جو لیکجز ہیں انکو ہم نے پہلے بلاک کرنا ہے۔ ہم ملکی معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے جا رہے ہیں۔ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں سب کو ٹیکس دینا ہو گا۔ ملک خیرات سے نہیں ٹیکس سے چلتے ہیں۔ ہم بجلی کے تقسیم کار کمپنیوں کو پرائیویٹائز کریں گے۔ بجلی کمپنیوں کی نجکاری کے دو مراحل ہو سکتے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ یا پھر مکمل نجکاری کی جائے گی۔

ڈسکوز کے بورڈ اف گورنس میں بہتری کیلئے پہلا قدم اٹھایا جا چکا۔ حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ سے بل پاس ہو گیا ہے۔ اس وقت 2 ماہ کے امپورٹ کے برابر ہمارے زر مبادلہ موجود ہیں۔ مئی میں مہنگائی کی شرح 11 فیصد رہی ہے۔ مہنگائی میں کمی کے باعث اسٹیٹ بنک کی مانیٹری پالیسی کا فیصلہ ہوا۔ اسٹیٹ بنک کی شرح سود کو مزید نیچے آنا چاہیئے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بہت پروڈکٹیو بات چیت ہوئی۔ ہماری بات چیت اس نظریئے سے ہوئی ہے کہ ہم اصلاحاتی ایجنڈہ پر کاربند رہیں گے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو ہمیں بڑھانا ہے۔ اگلے مالی سال میں پالیسی ریٹ کو مزید نیچے آناچاہیےکرنسی میں اسٹیٹ بینک کے اقدامات سے مزید استحکام آۓ گافارن ایکسچنج کے ذخاٸر بہتر ہیںمہنگاٸی 48 فیصد سے مٸی میں گیارہ فیصد پر آگٸی۔ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں کمی کی ہے۔ کرنٹ اکاونٹ خسارے کا تخمینہ چھ ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ کرنٹ اکاونٹ خسارہ سرپلس میں جاۓ گا۔

نگران حکومت میں جو اقدامات اٹھاۓ گٸے اس نے اہم کردار ادا کیا۔

اسٹیٹ بینک نے بھی اہم کردار ادا کیاہمیں آٸ ایم ایف کے پروگرام میں جا نا چاہیے۔ اس کے علاوہ کوٸ پلان بی نہیں ہے۔ اگر نو ماہ کے آٸ ایم ایف پروگرام میں نہ جاتے تو یہاں نہ کھڑے ہوتے۔ مارچ2024تک سرکاری قرض 67ہزار525ارب روپےپر پہنچ گیا۔ رواں مالی سال 9 ماہ میں قرضوں میں4ہزار644ارب روپےکا اضا۔ مارچ2024 تک مقامی قرض کا حجم43 ہزار432ارب روپے رہا ۔ اسی عرصے تک بیرونی قرضہ 24ہزار93ارب روپے رکارڈ کیا گیا۔
رواں مالی سال 9 ماہ میں غیر ملکی قرض میں22ارب روپے کااضافہ ہو۔

وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویزملک کی اقتصادی سروے رپورٹ کے اجرا کے موقع پر گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ معاشی استحکام کو آگے بڑھانا سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کے مطابق آگے بڑھنا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی سخت ہدایت ہے کہ نچلے طبقے پر بوجھ نہ پڑے۔

سب کواپنی آمدن اور حیثیت کے مطابق پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ سب کواپنی آمدن اور حیثیت کے مطابق پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی سخت ہدایت ہے کہ نچلے طبقے پر بوجھ نہ پڑے۔ ایک سال میں مشکل حالات سےنکل کراستحکام کی طرف جارہےہیں۔ کئی ممالک کےسرمایہ کارپاکستان میں سرمایہ کاری کیلئےآرہےہیں۔ ہم نےمعاشی استحکام کوبرقراررکھناہے۔

مزید پڑھیں :نئے الیکشن ٹریبونل کو انتخابی عذرداریوں پر کارروائی سے روک دیا گیا

متعلقہ خبریں