اسلام آباد(سٹیٹ ویوز)اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلباء بازیابی کیس کی سماعت ہوئی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وزرائے حکومت جواب نہیں دے سکتے تو انہیں عہدے سے ہٹادیا ۔بلوچ طلبا بازیابی کیس میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت کے طلب کرنے کے باجود دوسری بار بھی عدلت میں پیش نہیں ہوئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم دوسری دفعہ نہیں آئے۔ نگران وزیراعظم سے پوچھ لیں ۔ ان کو اس لئے بلایا تھا کیونکہ وہ جوابدہ ہیں۔ سیکرٹری دفاع ، سیکرٹری داخلہ ، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ سب افسران جوابدہ ہیں کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ اپنے ملک کے شہریوں کی بازیابی کیلئے 2 سال لگے۔
مزید پڑھیں:لاہور ، ٹیپو ٹرکاں والا کا بیٹا بالاج ٹیپو قاتلانہ حملے میں جاں بحق
پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ کل میرے گھرپر ماسک پہنے لوگوں نے چھاپہ مارا گیا میرے ملازم کو پکڑ کر لےگئے۔ جسٹس محسن اختر نے کہا کہ شیرافضل مروت کے گھر رات 3 بجے کیوں گئے۔ میں بتا دیتا ہوں کہیں گے کہ گئے ہی نہیں۔ یہ ایم این اے اور وکیل ہیں ان کے ساتھ اسلام آباد میں یہ ہو رہا ہے۔ اگر رکن اسمبلی کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے تو بلوچستان میں عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا۔ آئی جی کا رویہ ٹھیک نہ ہوگا تو ہٹا دینا چاہیے۔عدالت نے 28 فروری کی سماعت میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، وزیرداخلہ اور وزیر دفاع کو طلب کرلیا۔
نگران وزراء ، سیکرٹری دفاع ، سیکرٹری داخلہ کدھر ہیں ؟اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ 12 لاپتہ طلبہ ابھی بازیاب نہیں ہوئے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری معلومات کے مطابق 8 طلبا بازیاب نہیں ہوئے۔