اہم خبریں

صحت کے کارکنوں نے تمباکو پر مزید ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کردیا

اسلام آباد(نیوزڈیسک)صحت عامہ سےمنسلک سماجی کارکنوں نے حکومت کو تمباکو پرٹیکس بڑھانے کےاپنے فیصلے پرثابت قدم رہنے کی ضرورت پرزور دیا ہےتاکہ قومی خزانے کومزید اضافی ریونیو حاصل ہوسکے۔ سوسائٹی فاردی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف چائلڈ(سپارک)کے زیراہتمام اسلام آباد کےمقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران صحت کےکارکنوں نے تمباکو پر ٹیکس لگانے پر ایک سمولیشن ماڈل پیش کیا جس میں بتایا گیا کہ تمباکو پرٹیکس میں اضافہ پاکستان کی حکومت اور عوام کیلئے جیت ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کمپین فارٹوبیکو فری کڈز کے کنٹری ہیڈملک عمران نےکہا کہ ٹیکس کسی بھی حکومت کیلئے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے اورتمباکو جیسی غیر ضروری اشیاء پرزیادہ سے زیادہ ٹیکس لگاناضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ملک مالیاتی عدم توازن کا شکار نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ فروری 2023 میں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی)میں اضافے کےحکومتی فیصلے کی وجہ سے مالی سال 23-2022 میں 11.3 بلین اضافی ایف ای ڈی ریونیو حاصل کیا گیا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 9.7 فیصد زیادہ ہے۔ مزید برآں مالی سال 23-2022 میں اضافی 4.4 بلین ویلیو ایڈڈ ٹیکس ریونیو حاصل کیا گیا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 11.5 فیصد زیادہ ہے۔ یہ اضافی 15.7 بلین ریونیو ہماری جی ڈی پی کا 0.201 فیصد بنتا ہے جوپاکستان جیسی مشکلات سے دوچار معیشت کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ ملک عمران نےمزیدکہا کہ یہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ٹیکسوں میں اضافہ معیشت کیلئے فائدہ مند ہے لیکن تمباکو کی صنعت غیرقانونی تجارت کا بہانہ بنا کر سب کو گمراہ کرتی ہے۔ ملک عمران نےمزیدکہا کہ لوگوں کو انڈر رپورٹنگ سے ہٹانے کیلئے غیر قانونی تجارت کے اعداد وشمار بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں ۔ یہ کمپنیاں اپنی پیداوار کو انڈر رپورٹ کرتی ہیں اور پھر اپنی غیررپورٹ شدہ مصنوعات کو غیر قانونی مارکیٹ میں فروخت کرتی ہیں جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔اس موقع پر ٹوبیکو کنٹرول سیل وزارت صحت کے سابق ٹیکنیکل ہیڈ ڈاکٹر ضیاء الدین نے کہا کہ تمباکو پاکستان میں سب سے بڑا خاموش قاتل ہے کیونکہ ہر سال 170,000 سے زائد افراد تمباکو کے استعمال کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس وباء کی وجہ سے سالانہ 615 ارب کا معاشی بوجھ بھی پڑتا ہے جوکہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قیمتوں میں اضافہ پیداوار اوراستعمال میں کمی لاتا ہے جس سے صحت کی لاگت کا بوجھ کم ہوتا ہے۔ تخمینوں کے مطابق، گزشتہ سال کے مقابلے مالی سال2022-23 میں سگریٹ کی اعلان کردہ پیداوار میں 31.7 فیصد کمی آئی ہے،اس مثال سے سیکھتے ہوئے، جس کی عالمی ادارہ صحت کی طرف سے بھی سفارش کی گئی ہے، پاکستان کوچاہیے کہ وہ باقاعدگی سے ٹیکسوں میں اضافہ کرے تاکہ مہنگائی اور فی کس آمدنی کو مدنظر رکھا جا سکے اور پاکستانی تمباکو کی مصنوعات کے نقصانات سے محفوظ رہیں۔ تقریب کے میزبان اور سپارک کے پروگرام مینیجر خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ پاکستان کے بچوں کو تمباکو کی صنعت کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ “متبادل تمباکو نوشی کرنے والوں” کو بھرتی کیاجاسکے۔6 سے 15 سال کی عمر کے تقریباً 1200 پاکستانی بچے روزانہ سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اوسطاً پاکستانی سگریٹ نوشی اپنی ماہانہ آمدنی کا 10 فیصد سگریٹ پر خرچ کرتے ہیں،اس لیے بڑھتی ہوئی قیمتیں ان قاتل مصنوعات کو بچوں اور کم آمدنی والے گروہوں کی قوتِ خرچ سے دور رکھنے کا سب سے مؤثر ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ خلیل احمد ڈوگر نےکہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اپنے بچوں اور نوجوانوں کو تمباکو کے نقصانات سے بچانے کیلئے متحد ہونا چاہیے، تمباکو پر ٹیکسوں میں اضافہ ایک ایسا قدم ہے جس پر باقاعدگی سے عملدرآمد ہونا چاہیے۔

متعلقہ خبریں