اسلام آباد (نیوزڈیسک) صحت کے شعبے سے وابستہ سماجی کارکنان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نظام صحت کی فعالی اور بیماریوں کے روک تھام کیلئے 2024ء میں تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ کیاجائے، پاکستان میں سگریٹ ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنا ناگزیر ہے، تمام سگریٹ برانڈز پر یکساں ایف ای ڈی ریٹ لاگو کرنا اور اگلے تین سالوں کے لیے ٹیکس میں اضافہ تجویز کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
صحت کے شعبے سے وابستہ سماجی کارکنوں نے ان خیالات کا اظہار سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) نے سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر (ایس پی ڈی سی) کی شائع کردہ تمباکو پر ٹیکس ماڈل کے اجراء کے حوالے سے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران کیا۔
تقریب میں صحت کے شعبے سے وابستہ سماجی کارکنان اور میڈیا نمائندگان نے شرکت کی، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ضیاء الدین اسلام ماہر صحت عامہ نے کہا کہ حالیہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 31.9 ملین بالغ افراد جو کہ بالغ آبادی کا تقریباً 19.7 فیصد ہیں، موجودہ تمباکو استعمال کرتے ہیں۔ تمباکو کے استعمال سے پاکستان میں سالانہ 160,000 سے زیادہ اموات ہوتی ہیں جو کہ ہر سال ملک کی جی ڈی پی کا 1.4 فیصد بنتی ہے۔
مزیدپڑھیں:صادق سنجرانی کو نئے چیئرمین کے آنے تک توسیع دینے کا فیصلہ
پاکستان کے سگریٹ ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنا ناگزیر ہے۔ تمام سگریٹ برانڈز پر یکساں ایف ای ڈی ریٹ لاگو کرنا اور اگلے تین سالوں کے لیے ٹیکس میں اضافہ تجویز کرنا وقت کی ضرورت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ تمباکو نوشی سے متعلق صحت کے مسائل سے منسلک اخراجات سگریٹ کے ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں، 23-2022 میں ٹیکسوں نے ان اخراجات کا صرف 16 فیصد احاطہ کیا، جو کہ 2019 میں 19.5% سے نمایاں کمی ہے۔ 24-2023 کی پہلی سہ ماہی کے ابتدائی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سگریٹ کی آمدنی تمباکو نوشی سے متعلقہ صحت کے اخراجات کے 19 فیصد تک بھی نہیں پہنچ سکتی، مالی سال ختم ہونے سے پہلے س پر فوری کارروائی کی ضرورت ہے، صحت کے اخراجات کی وصولی میں یہ تاخیر فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر (ایس پی ڈی سی) کے پرنسپل اکانومسٹ محمد صابر نے کہا کہ پاکستان اس وقت سگریٹ کیلئے دو درجے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کے ڈھانچے کے ساتھ کام کر رہا ہے، جس کی درجہ بندی قیمتوں کے لحاظ سے کی گئی ہے۔ 23-2022 میں خاطر خواہ اضافے کے بعد خوردہ قیمتوں میں ایف ای ڈی کا حصہ بالترتیب کم اور اعلی درجے کے لیے 48 فیصد اور 68 فیصد تک پہنچ گیا ہے تاہم 24 -2023 میں ایف ای ڈی کے حصص کی سطح بندی شرح میں ایڈجسٹمنٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے آمدنی اور صحت عامہ کی کوششوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2024 میں ایف ای ڈی میں 26.6 فیصد کا مجوزہ اضافہ 19.8 فیصد اخراجات کی وصولی کر سکتا ہے، جس سے صحت کے بوجھ اور ٹیکس کی آمدنی کے درمیان فرق کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو خودکار ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے لاگت کی وصولی کو تمباکو ٹیکس کی پالیسیوں میں ضم کرنا چاہیے، تمام سگریٹ برانڈز پر یکساں ایف ای ڈی ریٹ لاگو کرنا چاہیے، اور اگلے تین سالوں کے لیے ٹیکس میں اضافہ تجویز کرنا چاہیے۔ سپارک کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ تجویز کردہ ٹیکس میں اضافہ حکومت اور پاکستان کے عوام کے لیے صحت اور آمدنی دونوں کے لیے واضح کامیابی بن سکتا ہے۔
نئی حکومتوں کو تمباکو کی صنعت کی کسی چال میں نہیں آنا چاہیے اس حوالے سے تمباکو کی صنعت کی طرف سے پھیلائی جانے والی کسی بھی خرافات کو ختم کرنے میں سول سوسائٹی حکومت کا ساتھ دے گی۔ غیر قانونی تجارت کے بارے میں خدشات کا مقابلہ تحقیق کے ذریعے کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمباکو کمپنیاں ٹیکس پالیسیوں پر اثر انداز ہونے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے رپورٹ شدہ پیداوار میں ہیرا پھیری کرتی ہیں۔
مزید برآں، حال ہی میں نافذ کردہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا مقصد جعلسازی کو کم کرنا، غیر قانونی تجارت کا مقابلہ کرنا اور جوابدہی کو یقینی بنانا ہے۔