اسلام آباد ( اے بی این نیوز )پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عون عباس بپی نے کہا کہ حکومت کی بدانتظامی اور نااہلی کے باعث سیلاب کی تباہ کاریاں مزید بڑھ گئی ہیں جبکہ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے حکمران ذاتی دوروں اور فوٹو سیشنز میں مصروف ہیں۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 18 اگست کو اپنی تقریر میں واضح طور پر پیش گوئی کی تھی کہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ہونے والی شدید بارشوں اور طوفانوں کا پانی دریاؤں کے راستے پنجاب میں داخل ہوگا اور بالآخر جنوبی پنجاب کو متاثر کرے گا۔ ان کے مطابق یہ کوئی “راکٹ سائنس” نہیں تھی بلکہ ایک عام سی بات تھی جس پر حکومت پیش بندی کر سکتی تھی۔گراؤنڈ صورتحال عون عباس بپی نے جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور اور بورے والا کے قریبی علاقوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہزاروں ایکڑ رقبہ زیرِ آب آ چکا ہے، دریا کا پانی 13 کلومیٹر تک بستیوں کو ڈبو چکا ہے، مویشی بہہ گئے ہیں، گھروں اور املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی۔انہوں نے کہا کہ “میں اس وقت ایک ایسی جگہ پر ہوں جہاں چاروں طرف پانی ہی پانی ہے۔ میڈیا پر درست رپورٹنگ سامنے نہیں آ رہی، حقیقت یہ ہے کہ کسانوں کی گندم اور مکئی جیسی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں، جس کا نقصان اربوں روپے سے زیادہ ہے۔”حکومتی غفلت اور فوٹو سیشنزپی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت اگر پہلے ہی بند باندھ دیتی، یا لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیتی تو بڑے پیمانے پر نقصان سے بچا جا سکتا تھا، لیکن حکمرانوں کی ترجیحات بیرونی دورے ہیں۔ “وزیراعلیٰ جاپان اور چین جانے میں مصروف رہیں جبکہ عوام پانی میں ڈوب گئے۔”انہوں نے مزید کہا کہ اب جبکہ نقصان ہو چکا ہے، حکومت فوٹو سیشنز اور آٹے کے تھیلے بانٹ کر عوام کو بہلانے کی کوشش کرے گی، لیکن یہ عوام کی تکالیف کم کرنے کے بجائے مزید غم و غصے کو جنم دے گا۔ریسکیو اداروں کی کارکردگیعون عباس بپی نے اعتراف کیا کہ حکومتی ادارے تو غائب ہیں لیکن غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) بالخصوص ڈبلیو ڈبلیو ایف اور دیگر فلاحی ادارے بھرپور طریقے سے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صرف ایک کشتی کے ذریعے اب تک ساڑھے چار سو سے زائد افراد کو ریسکیو کیا جا چکا ہے۔مستقبل کا خطرہانہوں نے خبردار کیا کہ آنے والے دنوں میں مزید تباہی متوقع ہے کیونکہ پنجاب کے علاقے علی پور (ضلع مظفرگڑھ اور رحیم یار خان کے درمیان) وہ مقام ہے جہاں پانچوں بڑے دریا—ستلج، راوی، چناب، جہلم اور سندھ—آپس میں ملتے ہیں۔ “اگر اگلے تین دنوں میں پانی کا دباؤ بڑھا تو علی پور اور ملحقہ علاقے بدترین سیلابی صورتِ حال سے دوچار ہو جائیں گے۔”ری ہیبلیٹیشن سب سے بڑا چیلنجپی ٹی آئی رہنما کے مطابق بحالی کا عمل (rehabilitation) ایک طویل مرحلہ ہوگا۔ انہوں نے اے بی این نیوز کے پروگرام پروگرام “تجزیہ” میں گفتگو کرتے ہوئے “جب پانی نیچے اترے گا تب جا کر اصل نقصان کا تخمینہ لگایا جا سکے گا کہ کس کے گھر گرے، کتنے اسکول تباہ ہوئے اور کتنی زمینیں برباد ہوئیں۔ لیکن ابھی سے اندازہ ہے کہ کسانوں کی محنت، زمینیں اور مویشی سب ختم ہو چکے ہیں۔”سیاسی صورتحال اور پارٹی فیصلےپروگرام میں گفتگو کے دوران انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پارٹی کے اندر اختلافات موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے فیصلوں پر پوری پارٹی متفق ہے، حتیٰ کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے علامہ ناصر عباس کی نامزدگی بھی پارٹی نے اتفاق رائے سے قبول کی ہے۔حکومت اور مذاکرات کا مستقبلعون عباس بپی نے کہا کہ حکومت ایک طرف مذاکرات کی بات کرتی ہے لیکن دوسری طرف سختیاں مزید بڑھا رہی ہے۔ “خان صاحب کو سخت ترین قید میں رکھا گیا ہے، ان پر ہر طرح کی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اس صورتحال میں بظاہر کوئی سیاسی پیش رفت نظر نہیں آتی۔”انہوں نے کہا کہ اصل ذمہ داری حکومت اور ریاستی اداروں پر ہے کہ وہ اعتماد سازی کے اقدامات کریں، بصورت دیگر سیاسی بحران مزید بڑھے گا۔
مزید پڑھیں :تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کا اعلان،نوٹیفکیشن جاری،جا نئے کتنے بند رہیں گئے