اہم خبریں

ڈی چوک جا نے کا فیصلہ اور گنڈا پور ؟ پارٹی فیصلے امانت،باہر شیئر کرنیوالا غدار قرار،ہو شربا حقائق،علی محمدسامنے لےآئے

اسلام آباد (اے بی این نیوز) راہنما پی ٹی آئی علی محمد خان نے کہا ہے کہ عمران خان نے آئین اور پاکستان کی خودمختاری کے لیے ہمیشہ مضبوط مؤقف اختیار کیا ہے، اور 600 سے زائد دن جیل میں گزارنے کے باوجود ان کا حوصلہ اور جذبہ کم نہیں ہوا۔ ان کے مطابق پارلیمانی پارٹی میں کوئی رکن ایسا نہیں جو بانی پی ٹی آئی کی رہائی نہ چاہتا ہو۔

علی محمد خان نے کہا کہ احتجاج کسی بھی سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے، لیکن مذاکرات کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے، چاہے وہ اڈیالہ جیل سے ہی کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے زور دیا کہ سیاسی مسائل کا حل صرف سیاسی انداز میں ممکن ہے، تاہم بانی پی ٹی آئی تک گزشتہ آٹھ ماہ سے براہ راست رسائی نہ ہونا تشویشناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی سنجیدہ ڈائیلاگ کی نیت نظر نہیں آتی اور ملاقات کا نہ ہونا حیران کن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی مذاکرات کی کوششیں ہوئیں لیکن نتائج حاصل نہ ہو سکے، اور یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف میں بانی کے احترام کے بغیر کسی مذاکرات کی کامیابی ممکن نہیں۔ پارٹی اجلاسوں کے فیصلوں کو امانت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں باہر شیئر کرنا غداری کے مترادف ہے۔ وہ پروگرام اے بی این نیوز تجزیہ میں گفتگو کر رہے تھے۔

علی محمد خان نے کہا کہ ڈی چوک جانے کا فیصلہ اچانک کیا گیا، جس کے حق میں گنڈاپور نہیں تھے، جبکہ ریاستی مزاحمت کے باعث علی امین کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ انہوں نے واضح کیا کہ یوم آزادی پر احتجاج نہیں ہوگا بلکہ سب کو متحد ہو کر جشن آزادی میں شریک ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اصل دشمن وہ ہیں جو گھروں میں لاشیں اور شہادتیں بھیج رہے ہیں۔

سابق گورنر محمد زبیر نے کہا ہے کہ ملک میں موجودہ حالات کے باعث عوامی بے چینی اور نفرت کھلے عام محسوس کی جا سکتی ہے، اور بازاروں میں عوام کا اضطراب دراصل حالات کا فطری ردعمل ہے۔ ان کے مطابق اکثریت کی اس سطح کی ناراضگی ایک سنگین مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ سیاست کو محدود کرنے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن نواز شریف کی سیاست میں واپسی کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو بالآخر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پر ہی واپس آنا پڑے گا، اور اگر وہ اس مؤقف پر قائم ہو گئے تو ملکی سیاسی منظرنامہ یکسر بدل سکتا ہے۔

سابق گورنر نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کا بنیادی مقصد اپنی بیٹی کو وزیراعظم بنانا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 2022 اور 2023 کے سیاسی حالات کو پلٹ دینا آسان کام نہیں ہوگا، کیونکہ اس دوران ہونے والی تبدیلیوں نے سیاست اور عوامی رویوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

مزید پڑھیں :موسم گرما کی تعطیلات کا نیا شیڈول جاری ، سکول کب کھلیں گے، کونسی کلاسز کے طلبا پہلے کونسی کی بعد میں آئیں گے ،جا نئے

متعلقہ خبریں