روح پربوجھ

تاریخ کوخون آلودراہداریوں میں ایک محل اورقصرشاہی کے دربارمیں پڑاایک پتھربدلتے دنوں میں انسانوں کی بربریت،ظلم ،جورو ستم اور حیوانیت کی کہانی مدتوں بیان کرتا رہا۔اس پتھرپرسب سے پہلے اعلائےکلم الحق کے قافلہ سالارشہیدکربلا سیدناامام حسین ؓکامقدس سرابن زیادکے سامنے رکھاگیا۔پھراسی پتھرپرابن زیاد کا سر مختاربن ثقفی کے سامنے پیش کیاگیا ۔ یہی پتھر مختاربن ثقفی کے خون کی گواہی بناجب اس کا سر عبداللہ بن زبیرکے سامنے پیش کیا گیا اور پھراسی پتھر پرعبد اللہ ابن زبیرکاسرحجاج بن یوسف کے روبرو تاریخ کی بربریت کی شہادت دیتا رہا۔ سربریدہ لاشوں کی بے حرمتی،کٹے ہوئے سروں کی نمائش ان لوگوں کافعل رہاجن میں بربریت انسانی احترام پرغالب تھی یاپھرجن کے انتقام کی آگ نے انہیں ان لوگوں کی پیروی کرنے پر مجبورکردیاجن کیخلاف وہ حق کی آواز بلند کرتے تھے۔
میں تاریخ کی یہ کہانیاں پڑھتا تھا اور حیرت میں ڈوب جاتاتھا۔احدکی وادیوں میں سیدنا حمزہ کی مقدس لاش کامثلہ کرنے پرسید الانبیاﷺ کاکرب اوردکھ میری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔ مجھے وہ ہدایات یادآجاتی ہیں جو آپﷺ لشکر کو جہادپرروانہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے۔کسی فصل کوتباہ نہ کرنا،کسی لاش کامثلہ نہ کرنا، کسی عورت اوربچے پرہاتھ نہ اٹھانالیکن ان سب ہدایات کاتمسخرتاریخ میں جس طرح اس امت مسلمہ نے اڑایاوہ میری روح پربوجھ توتھاہی لیکن اپنی ہی زندگی میں اس تمسخرکی آنکھوں دیکھی گواہی کے مسلسل عذاب میں مجھے گرفتار ہوناپڑے گا۔ اس کرب کا تجربہ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کررہاہوں اورمیراالمیہ یہ ہے کہ یہ سب وہ لوگ کررہے ہیں جواسی رحمتہ اللعالمین ﷺکی سنت کے دعویداراوراس کے دین مبین کےعلمبردارہیں اورجن کی زبان ان کے ساتھیوں اوران کے گھرانے سے محبت میں رطب اللسان رہتی ہے۔ پانچ جولائی1985ء میں کوئٹہ میں شریعت کے نفاذ کیلئے ایک جلوس نکلنا تھا۔ضیاالحق کادوراسلام کے نفاذکاعلمبردارلیکن صرف اسی تعبیرپرقائم جواس کے حواری اسےبتاتے تھے،دوسری جانب مخالفین۔آمریت کاخاصہ ہے کہ آوازکوبزورطاقت سے دبایاجائے۔ پولیس کی بھاری نفری جلوس کے راستے کی رکاوٹ بنے کھڑے ہیں۔مذاکرات جاری تھے،اوپرسے احکامات تھے کہ جلوس کسی صورت میں نہیں نکلنا چاہئے۔اوپربات ہوئی،ان سے درخواست کی گئی کہ خون خرابے سےبچنے کیلئے یہ بہترین حل ہے کہ جلوس کے اکابرین سے پرامن رہنے کی ضمانت لے کران کوجلوس نکالنے کی اجازت دے دی جائے لیکن آمریت کوانسانوں کی جان اورعزت وآبروکے مقابلے میں حکومت کی رٹ کی پرواہوتی ہے۔ایک مجسٹریٹ نے میگافون پرجلوس کے غیرقانونی ہونےکااعلان کیا اورپھروہ علاقہ میدان جنگ بن گیا۔ آنسوگیس، لاٹھی ،گولی سب چلنےلگی۔ شام تک پوراعلاقہ دھواں دھواں تھااور اس کے درمیان کھمبوں پرپولیس والوں کے سرکاٹ کرلٹکائے ہوئےتھے۔کیاآمریت کاظلم،جبر اور تشددکسی کوانتقام کی اس سطح پرلے جاسکتاہے کہ وہ اس فعل کی پیروی کرنےلگے جس کے خلاف صدیوں سے احتجاج کرتارہاہو۔ اگست1989میں پشین کےشہرمیں اللہ کی راہ میں جہادکرنے والےدوکمانڈروں میں اختلاف ہوا،بندوقیں تن گئیں،روزلاشیں گرنےلگیں، ہرکوئی ایک دوسرے کومنافق اورروس کاایجنٹ کہنے لگا۔سرخاب کاکیمپ میدان جنگ بن گیا۔ آخرایک گروپ وہاں سے بھاگ کر افغانستان چلا گیا۔فاتح افغان مجاہدین کےکمانڈرکی آتش انتقام سردنہ ہوئی،اس نے ’’جہاد‘‘سے سرشارایک دستے کوقندھارروانہ کیا کہ ان کا قلع قمع کیاجائے۔انتقام کی آگ کوجذبہ جہادکہنے والے یہ سرفروش قندھارگئے،لڑائیاں ہوئیں اور پھر اس گروپ کے دو کمانڈروں کوقتل کیا،علامت کے طورپران کے سرکاٹ کرپیازکی بوریوں میں چھپائے اورپاکستان کے شہرپشین کے سرخاب مہاجر کیمپ میں لاکر درختوں پر لٹکا دئیے۔ یہ نشان عبرت ایک ایسی انسانی تذلیل تھی کہ جس کی نہ ان اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں سے کوئی توقع رکھتاتھااورنہ ہی کوئی برداشت۔ لوگ گنگ تھے،نہ کسی مسجدکے لاؤڈ سپیکر سے اس کی مذمت ہوئی اورنہ کسی منبرسے صدائے احتجاج بلند ہوئی،سروں کی نمائش اور سربریدہ لاشوں کی بے حرمتی کوئی منتقم مزاج بے دین اوربے راہ رو کرے تواس کے نسلی تعصب پرماتم کیاجاسکتا ہے۔قاتل اورخاندانی انتقام میں اندھےایسااکثرکرتے ہیں۔میں نے آٹھ سال کی عمرمیں گجرات میں میاں اکبر کے قتل کی واردات دیکھی ہے جہاں میں اور والدصاحب ایک عزیز کے نمازجنازہ میں شرکت کیلئے گئے ہوئے تھے۔ہم سب قبرستان جارہے تھے توراستے میں قتل کی جگہ سے قبرستان تک لاشیں گھسیٹنے سےخون کی لکیریں دیکھی تھیں کیونکہ قتل کرنے والے مقتولین کی لاشیں اپنے باپ کی قبرتک اس گواہی کیلئے لے گئے تھے کہ ہم نے قتل کرکے انتقام لے لیا، لیکن وہ جن کی زندگیاں اسلام کے اصول جنگ،امن،صلح وآشتی کے پیغام سناکر گزریں، جن کی اول روزسے تربیت رحمتہ اللعالمینﷺکی حدیثیں سنتے ہوئے ہوئی،ان کے جذبہ انتقام کے بپھرتی نفرت سے جب سوات کے بازاروں میں سربریدہ لاشوں کی نمائش اوربے حرمتی کی خبریں سنی توپتانہیں کیوں مجھے اپنی بدقسمتی پررونا آیا۔میں سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ ہم پرجوامریکاکی غلامی،بدترین آمریت اوربے راہ روقانون کاعذاب نازل ہےیہ ہمارے اعمال کانتیجہ ہے۔میرے رب نے فرمایا ’’جیسے تم ہوگے ویسے ہی تمہارے حاکم ۔ جہاں راست بازوں پرجذبہ انتقام غالب آجائے اوروہ اسلاف کی ہدایت ترک دیں وہاں قسمت کاماتم کرنے کے سوا کیاکیا جاسکتاہے۔شریعت کے نفاذکی دھن میں مست لوگوں کوسیدنا علیؓ کاوہ واقعہ شایدیادہوکہ آپ ایک کافرکوپچھاڑکرسینے پرسوارہوگئے،اس نے آپ کے چہرے پرتھوک دیا،آپ اس کاسرکاٹنے کی بجائے نیچے اترآئے، کہا اب اگرمیں نے تمہیں قتل کیا تواس میں اللہ کے راستے میں جہادکے ساتھ میراانتقام بھی مل جائے گا۔کاش ایسے میں مسجدکے لاؤڈ سپیکر سے،کسی منبرسے،کسی عالم دین کی خطابت کے جوش سے ایک بات بلندہوہم ظلم وجور،جبروزیادتی، اورلادینیت کامقابلہ صرف اللہ کیلئے کرتے ہیں،اس میں اگرانتقام کی ذراسی کھوٹ یاملاوٹ بھی آگئی تواعمال توضائع ہوں گے ہی دنیا بھی ہماری تعلیمات سے نفرت کرنے لگے گی۔ کیااب وہ وقت نہیں آن پہنچاکہ ہم اللہ اوررسول کی خوشنودی کیلئےاپنے بھائیوں کے گلے کاٹنے سے توبہ کرلیں۔