کراچی( )کرونا وائرس کی وباکے بعد معاشی بحالی کا عمل ’’ریجیم چینج‘‘ کا شکار ہوگیا، ڈالر نے روپے کوخوب جھٹکے دیے، زرمبادلہ کے ذخائر اپریل2014کے بعد 8 سال کی پست ترین سطح پر آگئے۔2022ء کے دوران مہنگائی کی شرح 23.8 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی، ترسیلات زر کی آمد میں 9.6 فیصد کمی واقع ہوئی، جولائی تا نومبر 12ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں، برآمدات میں 2 فیصد کمی واقع ہوئی۔حکومت کے اقدامات کی بدولت درآمدات میں 16.2فیصد کمی ہوئی، جس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی 57 فیصد تک کم ہوگیا تاہم صنعتی خام مال، کھانے پینے کی اشیا، مشینری، اسپیئر پارٹس کی قلت کا سامنا کرنا پڑا، سال کے دوران براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 51.4 فیصد کمی کے ساتھ 43 کروڑ ڈالر تک محدود رہی، مجموعی غیرملکی سرمایہ کاری 26.8 فیصد تک کم رہی۔پاکستان کی معیشت کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، جس میں سے 15ارب ڈالر کا نقصان زرعی شعبہ کو اٹھانا پڑا۔ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں سال کے دوران 16فیصد تک اضافہ ہوا۔ حکومت نے بجٹ خسارہ کو قابو کرنے کے لیے ترقیاتی بجٹ بھی محدود کردیا، اسٹیٹ بینک نے طلب کم کرنے اور افراط زر پرقابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافہ کا سلسلہ جاری رکھا اور سال کے د وران شرح سود 8.75 فیصد سے بڑھ کر 16فیصد پر آگئی۔ملک پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلانا شروع ہو گیا، سرمایہ کاری، ترسیلات اور برآمدات سمیت بیشتر اہم معاشی اشاریے بھی منفی رہے 2022ء پاکستانی عوام کے لیے مشکلات کا سال رہا۔