اسلام آباد (نمائندہ خصوصی، محمد ابراہیم عباسی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے عسکری بینک لمیٹڈ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے وزارت خزانہ اور ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو 3 دسمبر کو عدالتی معاونت کے لیے طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نئی ٹیکس وصولیوں کی بنیاد پر بینکوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ کرے۔
جسٹس بابر ستار کی عدالت نے عسکری بینک کی جانب سے سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کے ذریعے دائر درخواست پر سماعت کے بعد حکم نامہ جاری کیا۔ درخواست میں پٹیشنر نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیونتھ شیڈول کے رول سکس سی اور سکس اے کو چیلنج کیا ہے، جو ان کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ کی شق 46B3 سے متصادم ہیں۔
وکیل کے دلائل
پٹیشنر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار ایک بینکنگ کمپنی ہے جس نے فیڈرل گورنمنٹ سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کی تھی، جس پر اضافی ٹیکس کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ سرمایہ کاری ابھی میچور نہیں ہوئی اور رواں مالی سال میں اس پر ٹیکس لاگو کرنا غیر قانونی ہے۔وکیل نے مزید کہا کہ ماضی سے اطلاق کرتے ہوئے ٹیکس میں اضافہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ یہ قانون کے بنیادی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ پٹیشنر کے بینکنگ کاروبار کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو کہ سٹیٹ بینک کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
عدالت کے مشاہدات
عدالت نے حکم نامے میں یہ بھی لکھا کہ بینکوں کو ہدایات دینے کا اختیار صرف سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس ہے اور کسی اور اتھارٹی کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ عدالت نے وزارت خزانہ اور دیگر متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 3 دسمبر تک جواب طلب کر لیا ہے۔
حکم نامہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ 3 دسمبر تک ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نئی کیلکولیشن کی بنیاد پر بینکوں کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہ کرے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ مقررہ تاریخ تک ملتوی کر دی ہے۔
یہ درخواست ملک کے بینکنگ سیکٹر اور ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے اختیارات کی حدود کے تعین کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس کیس کے نتائج مالیاتی سیکٹر پر دور رس اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔