اسلام آباد(نیوزڈیسک) آئندہ عام انتخابات میں 13 ملین حق رائے دہی سے محروم ہونے کا امکان ہے،2023ءکی مردم شماری کے مطابق خواتین اور مردوں کا تناسب 49:51 ہےجو کہ ووٹرز کی کم رجسٹریشن کی بدولت ، 46:54 پر یعنی تین پوائنٹس مزید کم ہو گیا ہے۔مذکورہ بالا فرق سے آئندہ انتخابات میں ،102 اضلاع کے زیادہ تر حلقوں کے نتائج کا مختلف سیاسی جماعتوں پر اثر پڑنے کا امکان ہے،اس بات کا انکشاف پتن کولیشن کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کیا گیا ہے،تحقیق کے مطابق صوبوں میں ووٹرز کی وسیع پیمانے پر کم رجسٹریشن سے مردوں اور خواتین دونوں کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا امکان ہے، جبکہ آئندہ عام انتخابات میں دھاندلی اور بدعنوانی کی غیر معمولی حد تک گنجائش موجود ہے، کیونکہ الیکشن کمیشن اور نادرا ملک کے 134 میں سے 102 اضلاع میں اہل ووٹر ز کا اندراج نہیں کر سکے، جبکہ 17 اضلاع میں اہل افراد سے زائد ووٹرز رجسٹر کیے گئے ہیں۔صوبہ وار تجزیہ ان پریشان کن رجحانات کا مزیدانکشاف کرتا ہے،بلوچستان کے 31 اضلاع اور تقریباً تمام حلقوں میں سے ووٹر رجسٹریشن کی تقریباً دو تہائی اہل آبادی کو رجسٹر نہیں کیا گیا ہے،پنجاب میں بھی، بہتر آمدو رفت کی سہولیات کے باوجود اسکے 40 اضلاع میں سے نصف میں ووٹر رجسٹریشن کم ہے، جبکہ 12 اضلاع میں ووٹر رجسٹریشن غیر معمولی حد تک ووٹر رجسٹریشن کے اہل افراد سے زیادہ ہے ،دلچسپ بات یہ ہے کہ ای سی پی کی طرف سے پیش کردہ صوبہ خیبرپختونخواہ کے ووٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق35 میں سے 21 اضلاع میں ووٹ رجسٹریشن کے اہل افراد کی ایک نمایاں تعداد حق رائے دہی سے محروم ہو گئی ہے، کیونکہ اس کے پانچ اضلاع میں ووٹر رجسٹریشن بہت کم اور 16 اضلاع میں کم یا بہت کم ، جبکہ پانچ اضلاع میں زیادہ یا غیر معمولی حد سے زیادہ رجسٹریشن کی گئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں ووٹر رجسٹریشن زائد نہیں کی گئی تاہم دو اضلاع میں ووٹر رجسٹریشن کم ہے، تحقیق کے مطابق،ضلع اور حلقے کی سطح پر رجسٹرڈ ووٹرز میں بھی واضح فرق سامنے آیا ہے ، مثال کے طور پر مری اور جہلم کی بالترتیب 78 فیصد اور 75 فیصد آبادی بطور ووٹر رجسٹرڈ تھی، دوسرے الفاظ میں ان دو اضلاع میں اوسطاً 18 فیصد اضافی (مشکوک) ووٹ موجود ہیں۔ کوہستان میں ووٹر رجسٹریشن 18 فیصد تک ہے ۔ مزید یہ کہ بلوچستان کے آٹھ اضلاع یعنی کیچ، پنجگور، سوراب، شیرانی، واشک، خضدار، کوہلو وغیرہ میں صرف 25 فیصد آبادی بطور ووٹر رجسٹر ہے ۔ دوسرے الفاظ میں، ان اضلاع کے تقریباً 33فیصد ووٹر رجسٹریشن کے اہل افراد کا انتخابی فہرست سے خارج ہونے کا امکان ہے۔ دونوں رجحانات انتہائی پریشان کن ہیں۔تازہ ترین مردم شماری کے مطابق 2023 میں پاکستان کی آبادی 241.49 ملین تھی، جبکہ ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق، جولائی میں ملک میں ووٹرز کی تعداد 127 ملین یا کل آبادی کا 52 فیصد تھی ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کی تقریباً 42 فیصد آبادی کی عمر 18 سال سے کم ہے دوسرے الفاظ میں 58فیصد یا 140 ملین آبادی 2023 میں ووٹر بننے کی اہل تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ 6 فیصد یا 13 ملین اہل افراد بطور ووٹر رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔2023 کی مردم شماری کے مطابق خواتین اور مردوں کا تناسب 49:51 ہےجو کہ ووٹرز کی کم رجسٹریشن کی بدولت ، 46:54 پر یعنی تین پوائنٹس مزید کم ہو گیا ہے۔مذکورہ بالا فرق سےآئندہ انتخابات میں ،102 اضلاع کے زیادہ تر حلقوں کے نتائج کا، مختلف سیاسی جماعتوں پر اثر پڑنے کا امکان ہے ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں این اے 48 کے حلقہ میں جیت کا مارجن 5000 سے کم تھااور این اے 40 کے حلقہ میںیہ 5001 سے 10000 کے درمیان تھا۔ اس لیے ووٹ کے اندراج میں تھوڑا سا اضافہ یا کمی ،قومی اور صوبائی سطح پر بہت گہرا اثر اتک کا باعث بن سکتا ہے۔ لہذا،اس اثر اندازی کے اثرات کو جانچنا بہت ضروری ہے کیونکہ امیدوار اور سیاسی پارٹیاں ووٹروں کی زائد او ر کم رجسٹریشن سے فائدہ اٹھا کر اپنی جیت کے امکانات کو بڑھا سکتی ہیں ۔ اس لیے بغیر کسی تاخیر کے اس کی چھان بین اور اصلاح کی ضرورت ہے ،پتن کولیشن نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ ہم ای سی پی، نادرا اور نگراں حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ نااہل ووٹروں کے ناموں کو حذف کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آنے والے انتخابات میں کسی بھی اہل ووٹر کو ووٹ کا حق استعم…