اسلام آباد (اے بی این نیوز )ازخود نوٹس کے اختیارات چھوڑنے کو تیار ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس،،کہا ایسے اختیارات نہیں چاہتا جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو، یا مفاد عامہ کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھایا جائے، اگر فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت حکم امتناعی برقرار رکھتی ہے تو بطور چیف جسٹس انھیں ہی فائدہ ہوگا،، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں ؟درخواست گزارکے وکیل سے استفسار،، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ رولز کو چھوڑیں، آئین کی بات کریں، کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں،، آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا ،کیا آپ اس پر مطمئن ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو؟‘ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بےاخیتار نہیں کر دیا گیا؟جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ یہ قوانین خود بنا لے تو ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کرے تو غلط ہے؟