اسلام آباد (نیوز ڈیسک) امریکی شہر واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی دفاعی شعبے سے منسلک پرانی عمارت فروخت کرنے کے حوالے سے مزید انکشافات سامنے آگئے ہیں ، ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے سفارتخانے کی عمارت کو فروخت کرنے قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے باقاعدہ تشہیر نہیں کی گئی اور بہترین قیمت حاصل کرنے کیلیے باقاعدہ بولی بھی نہیں لگائ گئی ہے جس کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے سفارتخانہ کی عمارت اپنے ہی من پسند افراد کو فروخت کرنا ہے سٹیٹ ویوز کو حاصل دستاویزی شواہد کے مطابق واشنگٹن میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی تاجر تنویر احمد نے اس عمارت کو خریدنے 7 ملیں امریکی ڈالرز کی پیشکش کی ہے ،تاہم ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ حکومت اس عمارت کو 6.8 ملین امریکی ڈالرز کے عوض اپنے من پسند افراد کو فروخت کرنا چاہتی ہےسٹیٹ ویوز کو حاصل دستاویزات کے مطابق پاکستانی نژاد امریکی تاجر تنویر احمد نے اس معاملے کی تفصیلات اسلام آباد کی اک نجی کافرم کو پیش کی ہیں جس کے بعد اس لاء فرم نے رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، سیکرٹری وزیراعظم اور سیکرٹری خارجہ اسد مجید خان کو خط لکھ دیا ہے خط میں تینوں اداروں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں شفافیت کو برقرار رکھا جائے اور قانونی تقاضے پورے کیے جائیں ۔۔
تقریباً 68 لاکھ ڈالر کی سب سے زیادہ بولی ایک یہودی گروپ کی جانب سے لگائی گئی جو عمارت میں عبادت گاہ بنانا چاہتا ہے، تقریباً 50 لاکھ ڈالر کی دوسری بولی بھارتی پراپرٹی ایجنٹ کی جانب سے لگائی جب کہ تقریباً 40 لاکھ ڈالر کی تیسری بولی پاکستانی رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کی طرف سے لگائی گئی۔رواں ماہ کے شروع میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ واشنگٹن میں موجود ملک کی 3 سفارتی جائیدادوں میں سے ایک جائیداد جو شہر کے انتہائی اہم اور بہترین محل وقوع ’آر اسٹریٹ‘ پر واقع ہے فروخت کیے جانے کی تیاری ہے “خط میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس قومی ملکیت کے فروخت پر حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان کے امریکہ میں سفارتخانے کی ویب سائٹ اور اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ویب سائٹ پر نہ ہی تشہیر کی گئی اور نا ہی بولی لگائی گئی یہ اقدام پیپرا قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، خط میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت کے اس اقدام نے قومی اثاثے کی حثیت رکھنے والی عمارت کی فروخت میں شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں ،خط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ قومی ورثے کی حثیت رکھنے والی اس عمارت کو عوام کے وسیع تر مفاد میں سب سے مہنگی بولی پر فروخت کیا جائے اور فروخت سے قبل اس کا اشتہار معلومات کے حصول کے بنیادی شہری حقوق کے تحت دفتر خارجہ کی ویب سائٹ کے ذریعے عوام کے سامنے لایاجائے، اور اس معاملے میں شفافیت اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھا جائے رپورٹ کے مطابق اس سے قبل ۔حکام نے واضح کیا کہ سفارت خانے کی پرانی یا نئی بلڈنگ کو فروخت نہیں کیا جا رہا ، آر اسٹریٹ پر واقع جس عمارت کی فروخت کے لیے بولیاں موصول ہوئی ہیں وہ 1950 کی دہائی کے وسط سے 2000 کی دہائی کے اوائل تک سفارت خانے کا ڈیفنس سیکشن تھا۔موجودہ سفارت خانہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں تعمیر کی گئی نئی عمارت میں ہے جب کہ پرانا سفارت خانہ شہر کے وسط میں واقع میساچوسٹس ایونیو پر بھارتی سفارت خانے کے قریب ہے۔رپورٹ کے مطابق سفارت خانہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں نئی عمارت میں منتقل ہوا لیکن پرانی عمارت کو بھی برقرار رکھا گیا اور اس عمارت اور قریب میں واقع سفیر کی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر تقریباً 70 کروڑ ڈالر خرچ کیے گئےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ، پاکستانی سفارتخانہ کی پرانی ،ر اسٹریٹ کی عمارت سفیر سید امجد علی نے 1953 سے 1956 کے درمیان خریدی تھی۔سفارت خانے کی پرانی عماعت امریکا میں پاکستان کے پہلے سفیر ایم اے ایچ اصفہانی نے خریدی تھی، دونوں عمارتیں تقریباً 20 برس سے خالی پڑی ہیں، ایک سابق پاکستانی سفیر نے ڈان کو بتایا کہ 2 سفرا جلیل عباس جیلانی اور شیری رحمٰن سفارت خانے کی پرانی عمارت کو فروخت کرنے کے معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن میڈیا میں تنقید کے بعد حکومت اس معاملے سے پیچھے ہٹ گئی، ایک سابق سفیر نے کہا کہ ذاتی طور پر میں تمام خالی عمارتوں کو فروخت کرنے کے حق میں ہوں۔سفارتی عہدیدار نے کہا کہ ہم پہلے ہی ان عمارتوں کو اتنے عرصے تک رکھ کر بہت پیسہ ضائع کرچکے لیکن عہدیدار نے اس طرح کی خبروں کو مسترد کردیا جن میں کہا گیا تھا کہ سفارت خانہ اپنے سفارتی اور دیگر عملے کو تنخواہ ادا نہیں کرپارہا اور اسی وجہ سے وہ اپنی جائیدادیں فروخت کر رہا ہے، عہدیدار نے کہا کہ سفارت خانے کے ہر ملازم کو وقت پر ادائیگی کی جاتی ہے۔