اہم خبریں

فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے والوں کے خلاف ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا اختیار 1952 کے آرمی ایکٹ کے تحت دیا گیا ہے،وفاقی وزیر داخلہ

اسلام آباد( اے بی این نیوز         )وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے والوں کے خلاف ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا اختیار 1952 کے آرمی ایکٹ کے تحت دیا گیا ہے، قوم کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث جتھے سے کوئی ہمدردی نہیں وہ انہیں قانون کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے، یونان کے ساحل پر حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں 350 پاکستانی سوار تھے، ان میں 193 کے خاندانوں کے ڈی این اے ٹیسٹ لئے جا چکے ہیں، انسانی سمگلنگ میں ملوث عناصر کو ہر ممکن سزا دی جائے گی، اس حوالے سے قانون میں جو ترمیم درکار ہوئی وہ کریں گے، عدلیہ کے فیصلوں کی طاقت شفافیت اور غیر جانبداری میں ہے، اگر مرضی کے بینچ بنا کرفیصلے کئے جائیں گے تو ان کے نتائج 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے فیصلے کی طرح ہی نکلیں گے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ 10 جون کو چار سو افراد کی استعداد کی حامل کشتی 700 افراد کو لے جا رہی تھی جو یونان کے ساحل کے قریب سمندر میں حادثہ کا شکار ہو گئی، اس میں سوار پاکستانیوں کی تعداد 350 تھی، اس کشتی میں سوار 104 افراد زندہ بچے ہیں، ان میں صرف 12 پاکستانی ہیں، یہ انسانی جانوں کا اتنا بڑا نقصان ہے جتنا دہشت گردی کے واقعات میں بھی نہیں ہوا، اللہ کرے مزید پاکستانی زندہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 281 مسافروں کے خاندانوں نے رابطہ کیا ہے جس میں انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے عزیز اس حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں، اب تک 193 خاندانوں کے ڈی این اے حاصل کئے جا چکے ہیں۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ وزیراعظم نے گریڈ 22 کے آفیسر کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کا آج بھی اجلاس ہوا ہے، یہ کمیٹی 3 مختلف زاویوں سے کام کر رہی ہے جس میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اس سنگین انسانی جرم میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے، اس حوالے سے قانون میں خامیاں ہیں، اس میں ترمیم کی تجویز بھی یہ کمیٹی دے گی تاکہ کسی طرح بھی اس مکروہ دھندے میں ملوث عناصر سزا سے نہ بچ سکیں کیونکہ گزشتہ پانچ سال کا جو ریکارڈ سامنے آیا ہے اس میں ایسے کاموں میں ملوث کسی ملزم کو سزا نہیں مل سکی، متاثرین پیسے لے کر معاف کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی طور پر جانے والے ان افراد میں سے 99 فیصد باقاعدہ قانونی طریقے سے مصر، لیبیا اور متحدہ عرب امارات گئے ہیں، وہاں کے حکام سے بھی رابطہ کر رہے ہیں، تاکہ اس بات کی تحقیقات ہو سکیں کہ انہیں اتنی بڑی تعداد میں کیسے ویزے دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی، جامع سفارشات آنے کے بعد اس کی منظوری اور مناسب ترامیم کی جائیں گی جبکہ ان واقعات میں ملوث مجرموں کے خلاف کریک ڈائون کیا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ میں گزشتہ روز کی سماعت کے بعد میڈیا پر ڈرامائی تبدیلیوں جیسے الفاظ استعمال کئے گئے، عدالت عظمیٰ ملک میں انصاف کا سب سے بڑا ایوان ہے، وہاں کی صورتحال پر اب اس طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں، 9 رکنی بینچ میں شامل سینئر ترین جج اور نامزد چیف جسٹس سمیت دو سینئر ججوں کی یہ رائے تھی کہ وہ اس بینچ کو نہیں مانتے کیونکہ یہ بینچ قانون اور آئین کے مطابق نہیں بنایا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری کے بعد عدالتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کریں، قانون کے مطابق تین سینئر ججوں پر مشتمل کمیٹی بینچ بنائے گی تاہم یہ 9 رکنی بینچ کمیٹی نے نہیں بنایا۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں یہ درج نہیں کہ کسی زیر کار قانون پر حکم امتناع جاری کیا جائے، آئین اس کا اختیار اور اجازت نہیں دیتا، عدالت عظمیٰ کو آئین کسی قانون کی تشریح کا اختیار دیتا ہے لیکن ایک قانون بننے سے پہلے ہی اس پر سپریم کورٹ کی طرف سے حکم امتناعی دیدیا گیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جو سینئر وکلا یہ پٹیشن لے کر عدالت گئے ہیں، ان کا سیاست اور وکالت میں ایک بڑا نام تھا تاہم لگتا ہے کہ یہ سیاست اور وکالت میں اپنی اننگز خراب کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یہ دونوں صاحبان پٹیشن سے پہلے عمران نیازی سے ملے، اس کے بعد چیف جسٹس سے بھی ملے ، جسٹس فائز عیسیٰ نے جب بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تو ان دونوں صاحبان نے ان کی منتیں کیں، اس موقع پر چیف جسٹس سے مکالمے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ فل کورٹ بینچ بنائیں۔ وزیر داخلہ نے سوال کیا کہ یہ صاحبان بتائیں کہ یہ مکالمہ کب ہوا؟انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو گزشتہ ایک سال میں چیف جسٹس نے اپنے ساتھ کسی بینچ میں شامل نہیں کیا، ان کو اس بینچ میں شامل کیا گیا کیونکہ ان کی فوجی عدالتوں کے حوالے سے ایک رائے تھی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اس سے قبل خواجہ طارق رحیم اور عبدالقیوم صدیقی کے درمیان بھی عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کی پیشی پر گفتگو سامنے آئی کہ خواجہ طارق رحیم نے فیصلے کے حوالے سے بتایا کہ یہ فیصلہ آنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال پر قوم تشویش کا اظہار کیوں نہ کرے؟ اس سے قبل پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے 14 مئی کا فیصلہ بھی سب کے سامنے ہے، عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے اسی طرح ہی انصاف کا بول بالا اور معاشرہ مستحکم ہو گا تاہم جب مرضی کے بینچ بنا کر فیصلے کئے جائیں گے توان کی کوئی اخلاقی جوازیت نہیں ہوگی، عدلیہ کے فیصلوں کی طاقت، شفافیت غیر جانبداری میں ہے، جب قوم سمجھے کہ یہ فیصلے انصاف کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، 14 مئی کے فیصلے پر عمل نہ ہونا افسوسناک ہے تاہم یہ فیصلہ تاریخ کا حصہ ہے، اس سے پہلے ملک کے ہر ادارے، بارز نے ہاتھ جوڑ کر چیف جسٹس سے یہ استدعا کی کہ فل کورٹ بینچ بنایا جائے، اس پارلیمان نے فل کورٹ بینچ کے حق میں قرارداد بھی منظور کی اور اس میں یہ کہا گیا کہ فل کورٹ بینچ جو بھی فیصلہ کرے گا، اس کو پوری قوم، پارلیمان اور وکلاتسلیم کریں گے تاہم یہ بینچ نہیں بنایا گیا، وہی پانچ رکنی بینچ بنا جس کے فیصلے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، اب پھر 9 رکنی بینچ بنایا گیا جس پر دو سینئر ججوں نے اعتراض کیا تاہم انہوں نے بینچ سے علیحدگی یا کیس سننے سے انکار نہیں کیا، ان کا موقف تھا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں آ جاتا کمیٹی بینچ مقرر کرے، اس پر غور کیا جانا چاہیے تھا، تاہم آدھے گھنٹے بعد ان دو سینئر ججوں کو نکال کر دوبارہ سماعت شروع کر دی گئی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جب بینچ بن جائے تو کسی جج کو بینچ سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، یہاں تک کہ وہ جج خود علیحدہ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی کس بات کی جلدی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح کے رویئے ہیں ان کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں، بابا رحمتا کے ساتھ کوئی ہاتھ ملانے کو تیار نہیں، اب اس کا بیٹا ایک سیاسی جماعت کے ٹکٹ فروخت کر رہا ہے، اس کو پارلیمانی کمیٹی نے طلب کیا تو اس پر حکم امتناعی دے کر اگلی تاریخ 16 اگست دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں سے انصاف ہو رہا ہو تو ملک کو درپیش بحران بھی حل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے وحشیانہ انداز میں قومی خزانے کو لوٹا، وہ جس عدالت میں بھی پیش ہو رہے ہیں، انہیں ریلیف مل رہا ہے، فیصل آباد میں 10 ارب روپے کے ترقیاتی کام ظاہر کئے گئے تاہم ان میں کوئی کام نظر نہیں آ رہا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کا ٹرائل نہیں ہو سکتا توپھر آرمی ایکٹ 1952 کے قانون کو کالعدم قرار دیدیں، اگر فوجی تنصیبات اور ممنوعہ علاقوں میں کوئی حملہ آور ہو گا تو اس کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے ذریعے ملٹری کورٹس ہی کریں گی، 9 مئی کو باقاعدہ دفاعی تنصیبات پر حملے کئے گئے، جناح ہائوس کیمپ آفس تھا، وہاں حساس معلومات اور آلات تھے، انہیں جلایا گیا، وہاں سے سامان چوری کیا گیا، اس کی تحقیقات فوج نے ہی کرنی ہیں جبکہ سامان کی ریکوری بھی اسی نے کرنی ہے، جن لوگوں نے شہداء کی یادگاروں کی توہین کی، فوجی تنصیبات پر حملے کئے، ان کو ہر قیمت پر منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہیے تاہم یہ فیصلے بھی نہ صرف انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں بلکہ اس میں انصاف نظر بھی آنا چاہیے، جو فیصلے انصاف پر ہوتے نظر نہ آئیں، ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، ایک ایسا بینچ جس کے بارے میں دو سینئر ججوں جن میں نامزد چیف جسٹس بھی شامل ہیں، نے رائے دی ہے کہ یہ بینچ قانون و آئین کے مطابق نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس فیصلے کے نتائج بھی 14 مئی کے فیصلے جیسے ہوں، قوم 9 مئی کے واقعہ میں ملوث جتھہ سے کوئی ہمدردی نہیں، قوم انہیں انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے، اس کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ قوم کی خواہشات اور مصمم ارادے کے خلاف ہو تو شاید وہ کسی طور پر کامیاب نہ ہو سکے، ان معاملات میں قومی سوچ کو اپنا کر فیصلے کئے جائیں۔

متعلقہ خبریں