٭ …وزیراعظم شہباز شریف کی ایران کے صدر سے پاک ایران سرحد پرملاقات، اہم معاہدےO حکومت کا تحریک انصاف سے مذاکرات سے انکارO لاہور:زمان پارک، پولیس کا زبردست محاصرہ گھر میں زیر تربیت 40 دہشت گرد حوالے کرنے کا مطالبہO عمران خان کے گھر میں صرف پانچ افراد پائے گئے، عمران، اہلیہ اور تین ملازم، صحافیوں کی گھر کے اندر کی جائزہ رپورٹO تحریک انصاف کے علی زیدی دوبارہ جیکب آباد جیل، فردوس شمیم سکھر جیل میں بندO تحریک کے 7000 کارکن جیلوں میں بند ہیںO عمران خان نے ابھی تک جناح ہائوس اور فوجی تنصیبات کی تباہی کی مذمت نہیں کی، پارٹی میں اختلافات، فواد چودھری اور علی زیدی کی شدید مذمتO لاہور ہائی کورٹ،70 کارکنوں کی نظر بندی ختمO توہین پارلیمنٹ قانون، سپریم کورٹ، ہائی کورٹوں دوسری عدالتوں کی بار ایسوسی ایشنوں اور صحافی تنظیموں کی سخت تنقید!O ملک بھر میں فوج کی حمائت میں ریلیاں، تباہ شدہ جناح ہائوس زیارت گاہ بن گیا، کثیر تعداد میں عوام اور طلبا کی آمدO ماضی میں فوج کو سرمایہ کاری میں ایک ارب80 کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے والے دو جرنیل برطرف کئے گئے، تمام سہولتیں واپس لے لی گئیںO افغانستان، وزیراعظم تبدیل، مولوی عبدالکبیر نیا وزیراعظمO فرانس کے سابق صدر کروزی کو کرپشن پر 3 سال قید کے خلاف اپیل مستردO بسوں، ٹرکوں کے کرائے کم کر دیئے گئے، لاہور سے فیصل آباد نیا کرایہ 650 روپے، ملتان1300 اور اسلام آباد کا نیا کرایہ 1550 روپےO عمران خان کو گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں: رانا ثناء اللہO گوادر، سپریم کورٹ کے حکم پر مولوی ہدائت اللہ کی ضمانت پر رہائی، 3 لاکھ کے مچلکےO ایران پاکستان کو 100 میگا واٹ بجلی فراہم کرے گاO اسلام آباد ہائی کورٹ، شاہ محمود قریشی کو رہا کرنے کا حکم۔
٭ …قارئین کرام، اوپر دی جانے والی خبروں کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ کالم رو زانہ کسی ایک موضوع پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ آج فوجی عدالتوں کے بارے میں چند اہم معلومات کی روداد پیش نظر ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ اور ممکنہ سزائوں کے بارے میں کافی معلومات چھپ چکی ہیں۔ نوازشریف، ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو بھی اعتراض تھا کہ ملک کی عدالتیں اپنی مرضی کے، من پسند فیصلے سناتی ہیں، عدل و انصاف کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ نوازشریف کے ایک دور میں سپریم کورٹ پر اس غصہ کے عالم میں حملہ بھی کرایا گیا تھا مگر نہ صرف نوازشریف، دوسرے حکمرانوں کو بھی عدالتوں کے فیصلوں پر شدید اعتراضات رہے۔ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کو کنگرو (Cangroo) عدالتیں قرار دیا جو دبائو کے تحت کام کرتی ہیں۔ اس سے پیشتر ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں پر سخت تنقید کی کہ وہ حکومتوں کے ترقیاتی کام روک دیتی ہیں۔ انہوں نے آئین میں پانچویں ترمیم کے ذریعے عدالتوں میں رٹ درخواستوں پر حکم امتناعی جاری کرنے پر پابندی لگا دی۔ بعد میں جب وہ گرفتار ہوئے تو لاہور ہائی کورٹ میں رٹ درخواست دائر کر کے اپنی گرفتاری کو چیلنج کیا۔ عدالت نے جواب دیا کہ ہم آپ کی ہی آئینی ترمیم کے تحت آپ کی درخواست سننے سے قاصر ہیں۔ ٭ …بات ذرا لمبی ہو گئی۔ نوازشریف کا قومی عدالتوں کے خلاف غم و غصہ پہلے سے بھی بڑھ گیا۔ وہ 2013ء میں تیسری بار برسراقتدار آئے تو عدالتوں کو سبق سکھانے کی ایک یہ تدبیر اختیار کی کہ عدل و انصاف کی فوری فراہمی کے نام پر ملک میں دو سال کے لئے فوجی عدالتیں قائم کر دیں۔ انہیں سزائے موت کا اختیار بھی دے دیا، عام عدالتوں نے اس بات کو اپنی توہین قرار دیا۔ اس بارے سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں دائر ہو گئیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کی زیر صدارت سپریم کورٹ کے تمام 17 ججوں کی فُل کورٹ نے چھ کے مقابلہ میں گیارہ ججوں کی اکثریت نے فوجی عدالتوں کے قیام اور ان کے اختیارات میں اضافہ کو آئینی اور قانونی طور پر درست قرار دے دیا۔ قانونی حلقوں کے مطابق یہ بات اذیت ناک تھی کہ فوجی عدالتوں کا نیا نظام سپریم کورٹ پر بھی حاوی تھا۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ عام عدالتیں ناکام ہو گئی ہیں۔ ایک پابندی یہ لگائی گئی کہ فوجی عدالتیں صرف وہ مقدمہ سُن سکیں گی جو وزارت داخلہ انہیں بھیجے گی ان کا واضح مطلب یہ تھا کہ اب پسند نا پسند کا معاملہ حکومت کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔ اپوزیشن پارٹیاں اس صورت حال کو تسلیم نہیں کر رہی تھیں۔ ہوا یہ کہ فوجی عدالتیں کسی کیس میں فوری فیصلے کرتیں تو کوئی نہ کوئی قانونی سقم رہ جاتا، یہ فیصلے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں مسترد ہو جاتے۔ اس پر حکومت اور عدلیہ میں چپقلش شروع ہو گئی (آج بھی یہی مسئلہ ہے) فوجی عدالتیں صرف دو سال کے لئے بنی تھیں، دو سال بعد ختم ہو گئیں اس کے ساتھ ہی ان کی زیر سماعت مقدمے لٹک گئے اور پھر عام عدالتوں میں منتقل ہو گئے۔ ٭…پی ٹی آئی میں دراڑیں شروع ہو گئیں۔ کراچی میں اہم رکن اور عہدیدار عامر محمود کیانی نے پارٹی سے استعفا دینے کے ساتھ عمر بھر سیاست میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا۔ سندھ اسمبلی کے رکن کریم گبول نے استعفا کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں 9 مئی کے واقعات کی سخت مذمت کی اور کہا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تحریک انصاف اتنی دہشت گرد جماعت ہے۔ ایک اور رکن سندھ اسمبلی نے بھی احتجاج کے طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ لاہور سے پی ٹی آئی کے آئندہ انتخابات کے ٹکٹ ہولڈر عباد فاروق نے احتجاج کے طور پر ٹکٹ واپس کر دیا۔ ایک اور مسئلہ، عمران خان نے ملک بھر میں 9 مئی کی تباہ کن وارداتوں پر ابھی تک مذمت کا اظہار نہیں کیا۔ الٹا بار بارا کہا ہے کہ یہ میری گرفتاری کا ردعمل تھا، جو ہونا ہی تھا، آئندہ بھی ہو سکتا ہے۔ عمران کے برعکس فواد چودھری، علی زیدی اور دوسرے افراد کی ان واقعات کی شدید مذمت نے تحریک انصاف میں واضح اختلافات قرار دیا ہے اور امکان ظاہر کیا ہے کہ فواد چودھری بھی پارٹی سے الگ ہونے والے ہیں۔ ٭…وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ویسے کسی مذاکرات کا مقصد کیا رہ گیا ہے۔ 8 اکتوبر کو عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے، اس میں صرف ساڑھے چار ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی بیشتر مرکزی قیادت جیل میں ہے۔ پارٹی پر سنگین الزامات عائد ہو چکے ہیں اور فوجی عدالتوں میں کیس جا رہے ہیں۔ مذاکرات کس طرح ہو سکتے ہیں، ویسے سیاسی بحران اور کشیدگی اسی طرح رہی تو 8 اکتوبر کے انتخابات بھی دکھائی نہیں دیتے۔ تحریک انصاف فوج کے ساتھ تصادم سے، خاص طور پر 9 مئی کی تباہی سے اپنی قدر و قیمت خود گنوا بیٹھی ہے! ٭ …محترم خواتین و حضرات، آج دماغ پر تاریخ سوار ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ اس ملک کو اقتدار کے ہوس پرست ایک شخص سابق صدر سکندر مرزا نے سخت نقصان پہنچایا۔ ری پبلکن پارٹی بنا کر مسلم لیگ کو مغلوب کیا اور بہت سی دوسری سازشیں بھی کیں۔ اس کی اخلاقی حالت کا کچھ ذکر! وہ 1952ء میں سیکرٹری دفاع تھا (میجر جنرل اعزازی عہدہ تھا)۔ روس کے سفارت خانہ کی ایک تقریب میں ایران کے ملٹری اتاشی لیفٹیننٹ کرنل افغامی کے ساتھ اس کی بیوی ناہید افغامی کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گیا۔ اگلے سال، 1953ء میں کرنل افغامی ناہید کو طلاق دے کر ایران واپس چلا گیا۔ سکندر مرزا کی بیوی اور بیٹا طیارہ کے ایک حادثہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ سکندر مرزا اکیلا تھا۔ اس نے ناہید سے شادی کر لی۔ ناہید 6 فروری 1919ء کو ایران کے ایک بڑے رئیس امیرتیمور کے گھر پیدا ہوئی، پہلا نام ناہید امیر تیمور، دوسرا ناہید افغامی اور تیسرا ناہید سکندر رکھا گیا۔ سکندر مرزا کا 1969ء میں اور ناہید کا 25 جنوری 2019ء کو، تقریباً 100 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ وہ بیگم نصرت بھٹو کی دور کی رشتہ دار بھی تھی۔ اب یہ کہ مجھے ناہید اچانک کیوں اتنی یاد آ گئی ہے؟ میں گزشتہ رات قدرت اللہ شہاب کی مشہور خود نوشت کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ پڑھ رہا تھا۔ ایک جگہ نظریں تھم گئیں۔ شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ سکندر مرزا کو بیرونی ملکوں کے ساتھ سیروتفریح کا بہت شوق تھا۔ شاہ ایران بڑے کروفر اور شان و شوکت کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک بار سکندر مرزا ناہید کے ساتھ ہم شاہ ایران کے محل میں کھانے پر گئے۔ تہران میں نئے شاہی محل کے نہائت اعلیٰ آرائش والے ہال میں کھانا تھا۔ بہت سے لوگ تھے۔ رضا شاہ پہلوی نے ایک اعلیٰ کرسی پر بیٹھ کر خطاب کیا۔ اس کی کرسی کے پیچھے پانچ اعلیٰ فوجی افسر شاندار وردیوں میں کھڑے تھے۔ ناہید نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ شاہ کا انداز دیکھ رہے ہو؟ اس کی کرسی کے پیچھے پانچ اعلیٰ فوجی افسر کھڑے ہیں ان میں دو فُل جرنیل ہیں۔ یہ منظر دیکھو، تم لوگ کیوں نہیں ایسی باتیں سوچتے!‘‘
