برلن ( اے بی این نیوز )خلا میں ریسرچ کرنے والے افراد میں مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں اور ایسے افراد کے حوالے سے اکثر سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ آیا وہ اپنے مشن کے دوران روزے رکھتے ہیں یا نہیں اور اگر رکھتے ہیں تو انہیں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے خلا باز سلطان النیادی فی الوقت 6ماہ کے مشن پر بین الاقوامی خلائی مرکز میں ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں جب ان سے روزوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے خاصی دلچسپ باتیں بتائیں۔ہ 2 مارچ کو اسپیس ایکس کی ڈریگون اسپیس کرافٹ کے ذریعے فلوریڈا میں کیپ کارنیوال اسپیس سینٹر سے مشن کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ سلطان النیادی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے پہلے مسلمان خلا باز ہیں جنہیں طویل مدت کے مشن پر بین الاقوامی خلائی مرکز بھیجا گیا ہے۔سلطان النیادی کا کہنا ہے کہ علما بشمول مفتی اعظم سعودی عرب پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ خلا بازوں کو بین الاقوامی خلائی مرکز میں ‘مسافر‘ تصور کیا جائے گا اور ان پر وہاں روزہ رکھنا فرض نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ان سے پہلے سنہ 2007 میں ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے خلا باز شیخ مظفر شکور کو بھی رمضان کے مہینے ہی میں بین الاقوامی خلائی مرکز میں قیام کا موقع مل چکا ہے لیکن انہوں نے اس دوران روزہ نہیں رکھا تھا اور اب تک خود انہوں نے بھی روزہ نہیں رکھا ہے۔سلطان النیادی نے بتایا کہ پیکٹ والی جو خوراک خلا باز روزانہ لیتے ہیں اس میں سالمن اور ٹیونا فش، پاستا، بند گوبھی، گوشت، فروٹ سلاد، مختلف پھل، چائے اور ڈی کیفی نیٹڈ کافی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ رکھیں جس کے لیے وہ گرین وچ ٹائم یا ‘کوآرڈی نیٹڈ یونیورسل ٹائم‘ کے مطابق سحر و افطار کریں گے۔ اس دوران ان کے جسم پر پڑنے والے اثرات کی معلومات مشن کی تکمیل کے بعد ناسا کی اجازت سے ہی جاری کی جا سکیں گی۔پرنس سلطان 17 جون 1985 کو خلائی شٹل ڈسکوری کے ذریعے 7 دن کے خلائی مشن پر روانہ ہوئے تھے۔ اس دوران رمضان المبارک کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔شہزادہ سلطان نے بتایا کہ ان کی روانگی سے قبل اس وقت سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ خلا میں روزہ فرض نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک ایڈونچر کے لیے روزہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا کہ اس دوران وہ خلا میں زیرو گریویٹی کی حالت میں تھے اور نیند کی کمی کے باعث وہ شدید تھکن کا بھی شکار تھے۔شہزادہ سلطان بتاتے ہیں کہ خلا میں روزے سے کہیں زیادہ چیلنجنگ کام نماز ادا کرنا تھا کیوں کہ زیرو گریویٹی کے باعث جسم ہمہ وقت معلق تھا اور ایک جگہ ٹکے رہنے کے لیے پاؤں کو ایک مخصوص فاسٹر سے جوڑے رکھنا پڑتا تھا تب بھی سجدہ کسی صورت ممکن نہیں تھا۔ شہزادہ سلطان نے خلا میں روزے سے جسم پر پڑنے والے اسٹریس کی تفصیلات اپنے سفر کے 35 سال بعد شائع ہونے والی کتاب ‘سیون ڈیز اِن اسپیس‘ میں بھی درج کی ہیں۔زمین پر رمضان کے آغاز کے ساتھ ہر علاقے کا رمضان کیلینڈر جاری کیا جاتا ہے جس میں سحر و افطار کا وقت درج ہوتا ہے لیکن بین الاقوامی خلائی مرکز پر ایک دن میں خلا باز 16 طلوع و غروب دیکھتے ہیں۔
