اسلام آباد( اے بی این نیوز )وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے کہاہے کہ حساس اوراہم قومی وآئینی معاملہ پر عجلت اورادارے میں بیٹھے ہوئے ججز صاحبان کی آراء کوپس پشت ڈال کرکیا جانیوالا فیصلہ متنازعہ ہوگا، آئین الیکشن کمیشن کوشفاف انتخابات کے طریقہ کارکوطے کرنے کااختیاردیتا ہے ، شیڈول کو تبدیل کرنا الیکشن کمیشن کا اختیارہے، الیکشن کمیشن نے سٹیک ہولڈرکی مشاورت سے 8 اکتوبرکو انتخابات کافیصلہ کیاہے۔ پیرکوقومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے اعظم نذیرتارڑ نے کہاکہ سپریم کورٹ میں ایک اہم آئینی معاملہ چل رہاہے جس پرپوری قوم کی نظریں ہے، دواسمبلیاں عمران خان نیازی کی ذاتی انااورپسند کی بھینٹ چڑھیں،عمران نیازی نے دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کاحکم دیا اوروزرائے اعلیٰ نے اپنا ذہن استعمال کئے بغیر اسمبلیاں تحلیل کردیں اورپھر کوشش کی کہ جلد ازجلد الیکشن کرایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ اس معاملہ پر پہلے مرحلہ میں عدالت عظمیٰ نے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا ، پہلے اوردوسرے روز ججز صاحبان نے اپنے عبوری فیصلے جاری کئے، دو ججز جسٹس اعجازالاحسن اورمظاہرنقوی پر اعتراض اٹھایا گیا کہ ایک تووہ اپنامائنڈظاہرکرچکے تھے اور دوسری وجوہات بھی تھیں، پی پی پی، مسلم لیگ ن، جے یوآئی کی طرف سے بھی درخواستیں دائر کی گئیں، بینچ کی کارروائی شروع ہوئی توبتایاگیاکہ دوججزصاحبان نے رضاکارانہ طورپر اپنے آپ کوبینچ سے علیحدہ کرلیاہے۔یہ بات میں نہیں کہہ رہا،یہ بات ٹی وی چینلز اوراخبارات میں بھی آئی،اسی روز چیف جسٹس نے جب دوبارہ بینچ تشکیل دیا تو وہ سات کی بجائے 5 ججز صاحبان پر مشتمل تھا اورتوجیہ یہ پیش کی کہ دومعزز ججز صاحا ن جسٹس یحیٰ آفریدی اورجسٹس اطہرمن اللہ نے وہ پٹیشن خودناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے درخواست کومستردکردیاہے ، پانچ ججز پرمشتمل بینچ نے جب دوبارہ سماعت شروع کی تو تین ججز صاحبان نے کہاکہ پنجاب اسمبلی کیلئے صدرمملکت اورکے پی اسمبلی کیلئے گورنرالیکشن کی تاریخوں کااعلان کرے اور الیکشن کمیشن سے مشاورت کرے۔ انہوں نے کہاکہ اسی روز دوججز صاحبان جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ وہ اپنے دوبرادرججز جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کی رائے سے متفق ہیں اورہماری رائے میں بھی یہ درخواستیں مستردہیں کیونکہ یہ سیاسی کیس ہے اوراسی کیس کی بابت دونوں ہائیکورٹ میں کیسز زیرالتواء ہیں، انہوں نے بھی وہ درخواستیں خارج کردیں، 30 منٹ کے اندرمیں نے اوراٹارنی جنرل نے موقف اٹھایا کہ یہ کیس 3 کے مقابلہ میں 4 اکثریتی ججز کی رائے سے مستردہوا، اس پرتبصرہ نگاروں نے تبصرے کئے، جب تفصیلی فیصلے آئے توججز صاحبان نے تفصیل سے واضح کیا کہ سوموٹو کیس نمبر 1، 2023 تین کی بجائے 4 ججز صاحبان کی اکثریت سے مسترد ہوا۔ وزیرقانون نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے ملک میں جاری سیکورٹی اورمعاشی صورتحال کوسامنے رکھتے ہوئے اورتمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد آئین کے آرٹیکلز 218 کی شق 3، آرٹیکل 224 اورسپریم کورٹ کے 2012کے ورکرزپارٹی کے لینڈمارک فیصلے کے مطابق 8اکتوبرکوالیکشن کرانے کافیصلہ کیا۔ یہ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں لے جایا گیا لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ بجائے 9 رکنی بینچ، لارجر بینچ یا فل کورٹ میں لیجانے کی بجائے چیف جسٹس نے اپنی صوابدید پر 5 رکنی بینچ تشکیل دیا، اس بینچ میں بھی معززرکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل کی ایک دلیل پر وضاحت سے کہاکہ گزشتہ سماعت میں یہ معاملہ3 کی بجائے 4 ججز صاحبان کی اکثریت سے خارج کردیا گیاہے ، مگرحیران کن طور پراس سماعت کوجاری کیا گیا یہ عدالتی طریقہ کار اور نظیروں کے منافی ہے، اسی اثنا میں سینئرموسٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے 15 مارچ کا محفوظ فیصلہ سنا دیا اورقراردیا کہ جب تک فل کورٹ رولز نہیں بناتی اس وقت تک ازخود نوٹس کے زیرالتوا مقدمات پیش نہ کئے جائیں۔ وزیرقانون نے کہاکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جب آخری فل کورٹ میٹنگ کی تھی تواس میں خاص طورپرازخود نوٹس کا معاملہ اٹھایاگیا۔ فل کورٹ میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ آرٹیکل 184 تین کی جیوریسڈیکشن کو طے کرنے کیلئے فل کورٹ رولز طے کرے مگرساڑھے چار برسوں کے بعد بھی فل کورٹ نہیں بنایاگیا، اس کے باوجود موجودہ مقدمہ کی کازلسٹ جاری ہوئی، جب کیس عدالت میں آیا توجسٹس امین الدین نے کہاکہ اس فیصلہ کی وجہ سے وہ ضروری سمجھتے ہیں کہ موجودہ کارروائی روکی جائے اوروہ الگ ہوگئے، اسی روز 4 رکنی بینچ بنایا گیا، یہ ایک ایسا موقع ہے کہ سماعت کو غیرجانبدار، منصفانہ اور انصاف نظرآنیوالے اصول کویقینی بنانے کیلئے ایک ایسا بینچ تشکیل دیا جاتا جس پرکوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا اوروہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ ماسوائے ان دوججز کے فل کورٹ بنایا جاتالیکن حیران کن طورپر تین رکنی بینچ نے کارروائی شروع کی،آج عدالت میں بھی یہ بات ہوئی کہ حکمران سیاسی اتحاد کے سربراہان کی تفصیلی مشاورت ہوئی اوراس مشاورت کے بعد اس بات کااظہارکیاگیا کہ ملک کی اعلی ترین عدالت میں معاملات کس طرح سے چل رہے ہیں، نصف سپریم کورٹ اس رائے کا اظہارکرچکی ہے کہ ازخود نوٹس کے کیسز میں پیرامیٹرز طے ہونے چاہئیں۔ حکومتی اتحاد کی جانب سے تین رکنی بینچ پرعدم اعتماد کااظہارکیاگیا اورمودبانہ اپیل کی گئی کہ 4، 3 کے فیصلے کے باوجود اگر سماعت جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے پہلے فل کورٹ میٹنگ کریں اورپیرامیٹرز طے کریں اورایسا بینچ تشکیل دیا جائے جو سب کو قابل قبول ہو لہذا سماعت کوڈراپ کیا جائے ، آج صبح جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی اورسیاسی جماعتوں کے وکلاء پیش ہوئے توناراضگی کااظہارہوا کہ آپ نے توبائیکاٹ کیاہے اوراعلامئے جاری کئے توپھرکیوں آئے ہیں تووکلاء نے کہاکہ ہمیں بینچز پراعتراض ہیں، ہمارے تحفظات کے ہوتے ہوئے سماعت سے قبل آپ ہماری باتیں سنیں، چھ روز سے سیاسی جماعتوں کوفریق نہیں بنایا جارہا، ججز صاحبان نے دوبارہ کہاکہ آپ تحریری طور پر لے آئیں کہ آپ نے بائیکاٹ نہیں کیا، آج منصورعلی خان نے دوگھنٹے تک اپنی معروضات پیش کیں کہ عدالت کے وقار کیلئے ایساراستہ اختیارکیا جائے جوپوری قوم کو قابل ہو۔ وزیرقانون نے کہاکہ ہمیں تاریخ کے جھروکے میں بھی دیکھنا چاہئیے کہ ادارے اپنے کنڈکٹ اورفیصلوں سے عزت بناتے ہیں، اٹارنی جنرل نے دست بستہ عرض کیا کہ ایک اورحل بھی ہے کہ چھ معزز ججز صاحبان ایسے ہیں جو ان بینچوں میں شامل نہیں تھے، یہ معاملہ ان ججز صاحبان کے پاس بھیجا جائے مگراس پرتوجہ نہیں دی گئی، اب خبرآئی ہے کہ عدالت عظمی کے بینچ نے سماعت مکمل کرلی ہے اورفیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے اورشاید کل سنایا جائیگا۔ اتنے حساس اوراہم قومی اورآئینی معاملہ کو عجلت اورادارے میں بیٹھے ہوئے ججز صاحبان کی آراء کوپس پشت ڈال کرفیصلہ کیا جائیگا تو متنازعہ فیصلہ ہوگا، آج بھی کہاگیا کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کرفیصلہ کریں، میں عدالت عظمیٰ سے دست بدستہ عرض کررہاہوں کہ پہلے اپنے گھرمیں اختلافات کو دورکریں، آپ سے فل کورٹ میٹنگ مانگی جارہی ہے وہ دیں۔ وزیرقانون نے کہاکہ اس موقر ایوان اورسینیٹ نے سپریم کورٹ پریکٹسسز اینڈ پروسیجر بل منظور کیا ہے ، پچھلے 4 دنوں سے صدرمملکت کے پاس ہے، صدرمملکت سیاسی پارٹی کاورکر نہ بنیں ان کامنصب ان کویہ اجازت نہیں دیتا۔وزیرقانون نے کہاکہ ایک صاحب دوجھنڈوں کے ساتھ بیٹھ کربھاشن دیتے ہیں کہ الیکشن 90 روز میں ہونا ہے، آئین شفاف الیکشن کے طریقہ کارکی بات بھی کرتا ہے، الیکشن ایک روز میں ہوں یہ بھی آئین میں طے ہے،الیکشن کے تنازعات کی ہم نے بھاری قیمت دی ہے، آئین سے روگردانی ہم نے دیکھی ہے، جب اسمبلی کوبرخاست کیا گیا، جب وزیراعظم سے حلف نہیں لیاگیا توکیا وہ آئین سے روگردانی نہیں تھی، جب قومی اسمبلی اورپنجاب اسمبلی میں 25،25 روز تحریک عدم اعتماد فکس نہیں کی جاتی تو آئین سے روگردانی نہیں تھی، گورنرکی سمری پرجب صدر25 روز بیٹھے رہے تو کیاآئین سے روگردانی نہیں تھی، ملک کی آئینی تاریخ کوداغدارکیا گیا، حکومت سے چمٹے رہنے کیلئے آئین کو پامال کیا، آئین کے خالقوں کوعلم نہیں تھا کہ بڑے عہدوں پراتنے چھوٹے لوگ آئیں گے جو اپنی ذاتی انا اوراپنی نوکری کو بچ…