شام(اے بی این نیوز)شام کے مرکزی بینک کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں یکم جنوری 2026 سے قومی کرنسی کو مرحلہ وار طور پر نئی شکل میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔ یہ اقدام سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شامی معیشت کی بحالی کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔
مرکزی بینک کے گورنر عبدالقادر الحصریہ نے جمعرات کو جاری بیان میں کہا کہ کرنسی کی تبدیلی ایک ایسے اہم قومی مرحلے پر کی جا رہی ہے جو شام میں ایک نئے معاشی اور مالیاتی دور کے آغاز کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی شامی کرنسی آزادی کے بعد مالی خودمختاری کی عکاس ہوگی اور معاشی استحکام و بحالی کی جانب ایک مضبوط قدم ثابت ہو گی۔
مرکزی بینک کے مطابق کرنسی کی تبدیلی سے متعلق تفصیلی طریقۂ کار اتوار کو ہونے والی پریس کانفرنس میں پیش کیا جائے گا۔ حکام کے مطابق شامی پاؤنڈ سے 2 صفر ختم کیے جائیں گے اور نئے کرنسی نوٹ جاری کیے جائیں گے۔
اس وقت زیرِ گردش بعض کرنسی نوٹوں پر سابق صدر بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کی تصاویر موجود ہیں، جو کئی دہائیوں تک شام پر حکمرانی کرتے رہے۔
واضح رہے کہ 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد شامی پاؤنڈ کی قدر میں شدید کمی واقع ہوئی۔ جنگ سے قبل ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں شامی پاؤنڈ کی قدر 50 تھی، جو اب 10 ہزار سے 11 ہزار پاؤنڈ تک پہنچ چکی ہے، جس کے باعث شہریوں کو روزمرہ ضروریات کی خریداری کے لیے بڑی مقدار میں کرنسی نوٹ استعمال کرنا پڑتے ہیں۔
عبدالقادر الحصریہ کے مطابق کرنسی کی تبدیلی سے اس کی حقیقی قدر متاثر نہیں ہوگی بلکہ پرانے نوٹوں کی جگہ نئے نوٹ متعارف کروائے جائیں گے تاکہ مہنگائی کے مزید دباؤ سے بچا جا سکے۔
مرکزی بینک نے بتایا ہے کہ نئی کرنسی کے تحت 6 مختلف مالیتوں کے نوٹ جاری کرنے کا منصوبہ ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکا نے رواں ماہ شام پر عائد سیزر پابندیوں کو مستقل طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد برسوں کی معاشی تنہائی کے خاتمے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی واپسی کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔
مزید پڑھیں۔














