اسلام آباد( اے بی این نیوز ) سینئر سیاستدان محمود مولوی نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مزاحمت نہیں بلکہ مفاہمت ناگزیر ہے، کیونکہ بات چیت کے بغیر کسی بھی مسئلے کا کوئی دیرپا حل ممکن نہیں۔اے بی این نیوز کے پروگرام’’سوال سے آگے‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے محمود مولوی نے کہا کہ نہ صرف وہ خود بلکہ کئی سینئر سیاسی شخصیات بھی مفاہمت اور ڈائیلاگ کے حق میں ہیں۔ سیاسی اختلافات کوئی انہونی بات نہیں، یہ ہر گھر میں ہوتے ہیں، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا جائے اور آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔
انہوں نے چیئرمین شپ سے متعلق قیاس آرائیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ناموں میں تبدیلی کو مائنس ون فارمولے سے جوڑنا درست نہیں۔ کسی فرد کو چیئرمین بنانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پوری پارٹی اس کے حوالے کر دی جائے۔ محمود مولوی نے منفی سوچ سے گریز پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غیر ضروری خدشات سیاسی ماحول کو مزید خراب کرتے ہیں۔
محمود مولوی کا کہنا تھا کہ اگر حکومت مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے، تاہم ہم نے اپنا آئینی اور سیاسی کردار ادا کر دیا ہے۔ چیئرمین کی تقرری کو مائنس ون سے جوڑنے کی باتیں بے بنیاد ہیں، مذاکرات ہماری ذمہ داری تھے جو ہم نے پوری کی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے فیلڈ مارشل کو اعزاز دیا گیا، یہ نہ صرف ایک شخصیت بلکہ پورے ملک کی عزت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اچھی چیزوں کو بھی تسلیم کرنا چاہیے، ہمیشہ صرف منفی پہلوؤں پر بات کرنا درست رویہ نہیں۔
مولوی نے کہا کہ سیاسی استحکام، جمہوری تسلسل اور قومی مفاد کے لیے حکومتوں اور سیاسی قوتوں کو بڑا پن دکھانا ہوگا۔ اختلافات کو مثبت انداز میں حل کیا جائے اور جو اقدامات ملک کے حق میں ہوں، انہیں سراہا جانا چاہیے۔
اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی باضابطہ دعوت دی جا چکی ہے، تاہم خود پی ٹی آئی کے اندر ہی اس پیشکش کو منفی انداز میں لیا جا رہا ہے، جس کے باعث پارٹی کے اندر اختلافات ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
اختیار ولی خان نے کہا کہ بیرسٹر گوہر بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اب بات ہونی چاہیے، لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کی صفوں میں مذاکرات کے معاملے پر واضح تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ ان کے مطابق یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ جماعت اندرونی طور پر کسی ایک حکمت عملی پر متفق نہیں۔
شواہد کے مطابق شاہ محمود قریشی 9 مئی کے واقعات میں ملوث نہیں تھے، تاہم مجموعی طور پر پی ٹی آئی کی ٹریک ہسٹری سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غیر سنجیدہ اور غیر حقیقت پسندانہ شرائط پر مذاکرات ممکن نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کسی قسم کی بلیک میلنگ کے آگے نہیں جھکے گی۔ اپنی مرضی کا چیف الیکشن کمشنر مانگنا یا نتائج تسلیم کرانے کی شرط رکھنا مذاکرات نہیں بلکہ دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل مذاکرات وہ ہوتے ہیں جو اصولوں اور آئینی دائرے میں ہوں، نہ کہ دھرنوں یا سڑکوں کے دباؤ پر۔
بانی پی ٹی آئی کو ایک سیاسی پروجیکٹ کے طور پر لانچ کیا گیا تھا، جو اب ناکام ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق موجودہ حالات میں سیاست کو محاذ آرائی کے بجائے سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو سیاسی استحکام کی طرف لے جایا جا سکے۔
مزید پڑھیں :بریک تھرو،مذاکرات کیلئے اپوزیشن الائنس راضی،جا نئے کیا ناگزیر قرار دیا گیا















