راولپنڈی(اے بی این نیوز) ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ قومی سلامتی پر اظہار رائے کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ پاکستانی فوج کی قیادت کیخلاف کسی بیانیے کی اجازت نہیں۔ افغانستان اور بھارت کا سوشل میڈیا ان کے بیانیے کو بڑھاوا دیتا ہے۔ بھارتی میڈیا پر نورین نیازی ملک وقوم کیخلاف انٹرو دیتی ہیں۔ 9 مئی کا مقدمہ سیاسی نہیں، قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ سیاسی اختلاف کو نیشنل سیکیورٹی تھریٹ قرار دینا درست نہیں۔ نو مئی کے کیسز اپنی نوعیت کے مطابق متعلقہ عدالتوں میں چل رہے ہیں۔
9مئی کا مقدمہ فوج کا نہیں پاکستان کے عوام کا ہے،9مئی سے متعلق فوجی عدالتوں میں جو کیسز آئے تھے ان کو نمٹا دیا گیاہے۔ ہمارے پاس فیض حمید کا کیس چل رہا ہے۔ سول عدالتوں میں جو مقدمات ہیں اس پر میں کمنٹس نہیں کرسکتا۔ کیا آپ چاہتے ہیں میں آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کروں ایسا نہیں کرسکتا۔
پاکستان میں عدالتی نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات خیبر پختونخوا میں رپورٹ ہوئے۔ قومی سلامتی کے امور سیاست سے بالا تر ہیں۔ تاریخ میں پاک فوج نے کبھی کسی شخص کے بارے میں ایسے بات نہیں کی۔ اب وقت ہے کہ ہمیں بناتا پڑے گا جو بیانیہ چلا رہا وہ کون ہے۔ ماضی میں کسی سیاست دان نے یہ کام نہیں کیا۔ افغان طالبان رجیم سے بات کرنے سے انکار نہیں کیا۔ ہم ملک میں جنگ لڑرہے ہیں،ہم انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کررہے ہیں۔
گورنر راج کا فیصلہ حکومت کرے گی،فوج کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ افغان طالبان رجیم سے بات کرنے سے انکار نہیں کیا۔ بات چیت ہو رہی ہے،لیکن دہشت گردوں سے بات نہیں ہوگی۔ ریاست پاکستان کا موقف ہے کہ فتنہ الخوارج سے بات نہیں ہوگی۔ ان مسائل پر بات کریں جو اصل مسائل ہیں۔ ہم نیشنل میڈیا کو انگیج کرنے کے حامی ہیں۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے سچ کو سچ غلط کو غلط کہے۔ فتنہ الخوارج سے کیسے مفاہمت کرسکتے ہیں۔ یہ ریاست کو فیصلہ کرنے دیں کہ کس سے کیا بات کرنی ہے۔
ریاست پاکستان نے بات چیت سے کب انکار کیا ہے۔ افغان طالبان حکومت سے مسلسل بات چیت کررہے ہیں۔ ہمارا ایک واضح نقطہ ہے کہ فتنہ الخوارج سے بات نہیں کرنی۔ بات چیت ہورہی ہے لیکن دہشتگرد سے با ت چیت نہیں ہوگی۔ خوارج سے بات چیت کا شوق اسی شخص کو تھا اس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ گورنر راج کا فیصلہ حکومت کا ہوتا ہے۔ اپنی سیاست کو افواج پاکستان سے دور رکھیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ بیانیہ ضروری ہے۔
رواں سال 13ہزار سے زائد آپریشنز کیے گئے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری ہے۔ صوبائی حکومت نے منشیات اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ افغان مہاجرین کے خاتمے کا نوٹیفکیشن کیوں جاری نہیں کیا گیا۔ یہ دہشت گردی اور جرائم کا گٹھ جوڑہے۔ یہ منشیات ،این سی پی،اغوا برائے تاوان اور بے تحاشا چیزوں میں ہے۔ ہم نے اس ریاست کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔
ہم کھڑے ہیں،کھڑے رہیں گے، ہم حق پر ہیں،حق پر رہیں گے۔ ذہنی مریض سے لیکر سب صبح سے شام تک فوج سے متعلق بات کرتے ہیں۔
ان کو ایک مینٹل ایکو سسٹم میں رکھا جارہا ہے جہاں ان کی پوری سیاست فوج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کہتے تھے فوج سیاست کرتی ہے نہیں لڑ سکتی،فوج نے لڑ کر دکھایا۔ ریاست فوج نے،حکومت ریاست ہوتی ہے،فوج ریاست کا ایک ادارہ ہے۔ تم نے ڈس انفارمیشن پر سیاست کی ہے۔ ہم کہیں نہیں جارہے ہیں،جب تک پاکستان ہے فوج رہے گی اور پاکستان ابد تک رہے گا۔ اس کا باپ بھی پاک فوج اور عوام کے درمیان دراڑ نہیں ڈال سکتا۔ بھیجو اپنی اولاد کو اس فوج میں انھیں تم نے باہر رکھا ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا کی پولیس قربانیاں دے رہی ہے،کیا آپ اسے مضبوط کررہے ہیں؟دہشت گردی ایک دن میں ختم نہیں ہوگی،اس کیلئے سیاسی مرضی کی ضرورت ہے۔ ہم نے یک زبان ہو کر ایک بیانیہ بنایا ہوا ہے،آپ اس کیخلاف الٹا کام کررہے۔خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کے صرف 2کیمپ خالی کرائے گئے۔ دہشتگردی ختم کرنے کیلئے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ کیا کے پی کے عوام کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے کہ ان پر ایک ٹولہ مسلط ہے۔ گورنر راج کا فیصلہ حکومت کا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری ہےکہ سچ کو سچ کہے۔ فوج نے پہلے کسی کو واضح طورپر سیکیورٹی تھریٹ نہیں کہا،۔
پہلے کسی سیاستدان نے یہ کام نہیں کیا جو اب ہورہا ہے۔
افسر اور جوان کا گہرا رشتہ ہوتا ہے، جان دیتے بھی ہیں اور لیتے بھی ہیں۔ اپنے بچوں کو تم نے باہر رکھا ہوا ہے ،فوج میں بھیجو کہ وہ خوارج کے خلاف لڑیں۔ آرمی چیف اور کمانڈر کے کہنے پر افسر اور جوان اپنی جانیں دیتے ہیں۔ خوارج کے خلاف واضح بیانیہ آرمی چیف نے دیا۔ یہ عوام اور فوج کے درمیان دراڑ نہیں ڈال سکتے ۔ ملاقاتوں اور سوشل میڈیا اکائونٹ پر پابندی کا فیصلہ فوج نے نہیں کرنا۔ ان پر پابندی کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔ عوام کے سامنے اس لئے بات کی کہ یہ بھی سارے پلیٹ فارم پر فوج کے خلاف بات کرتے ۔فوج ریاست کا ادارہ ہے ،ریاست اس سے بالاتر ہوتی ہے۔ ریاست جو فیصلہ کرے گی ادارے اس کے ساتھ چلتے ہیں۔ ریاست جو فوج کو کہتی ہے وہ کرتی ہے۔ ریاست حکومت اور اس کے ادارے ہوتے ہیں،فوج اس کا حصہ ہے۔
تم نے اصل مسائل پر بات نہیں کرنی ، پروپیگنڈہ پر سیاست کرنی ہے۔
ان کا سارا بیانیہ ریاست کے خلاف ہے ۔ ان کا بیانیہ کون چلا رہاہے سب کو اس کا پتہ ہے۔ پاکستان میں جھوٹ اور فریب کا یہ کاروبار مزید نہیں چلے گا۔ اس بیانیے کو پھیلانے اورسہولت کاری کی اجازت نہیں دیں گے۔ فوج کہیں نہیں جارہی، ہم نے ریاست کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ ہم حق پر ہیں اور حق پر ہی رہیں گے۔ ان کی پوری سیاست فوج کیخلاف الزامات پر گھومتی ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کی عوام کو بیوقوف بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاتھا کہ فوج لڑ نہیں سکتی ،صرف سیاست کرتی ہے۔ کیا فوج نے لڑکر نہیں دکھایا ،اس کی گونج پوری دنیا میں گئی۔
بات چیت کی بھیک سے سیکیورٹی نہیں ملتی۔ آئے روز ہمارے جوان ملک کی خاطر جانیں قربان کررہے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ ریاست نہیں تو ہماری بھی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بیانیہ بنانے کے ماہر ہے۔ دہشتگردی پریہ بیانیہ بناتے ہیں کہ کوئی ان کی حکومت کی کارکردگی پر بات نہ کرے۔ سی ڈی ایف کے ایشو پر انہوں نے پروپیگنڈہ کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ پتہ نہیں ان کے ذہنوں میں کہاں سے خیالات آتے ہیں۔ تم ادھر بیٹھے ہوئے تمہیںبھارت نے میڈیا خبر چلائی کہ بانی پی ٹی آئی مرچکے ہیں۔ نو دس مئی کوپاکستا ن کے خلاف زہر اگلنے والے ان کا بیانیہ کیو ں چلا رہے ہیں؟
دشمن ان کا بیانیہ اس لئے چلا رہاہے کہ اس کا فائدہ ہے۔
ان کا ایک بیانیہ یہ ہے کہ خوارج کو ماریں نہیں ان سے بات کریں۔ کیا پاکستان کی سیکیورٹی کی ضمانت کابل اور دہلی دے گا۔ پاکستان پرجب بھارت نے حملہ کیا تو یہ ذہنی مریض ہوتا تو کشکول لیکرچل پڑتا۔ یہ ذہنی مریض لوگوں کو خوارج کے خلاف آپریشن پر بھڑکاتا ہے۔ یہ اپنی فوج پر حملہ کراتے ہیں۔ جی ایچ کیو پر حملہ بھی اسی شخص نے کرایا تھا۔ ان کے ٹویٹ دیکھیں یہ پاکستان کے غدار شیخ مجیب الرحمان سے کتنا متاثر ہے۔ آپ کی شعبدہ بازی کا وقت ختم ہوچکا ہے۔
تمہارے پاس صوبے کی حکومت ہےیہ صرف فوج کے بارے میں بات کرتے ہیں ،پاکستان کے مسائل پر بات نہیں کرتے۔ ان کی سوئی فوج پر پھنسی ہوئی ہے یہ دہشتگردی پر بات نہیں کرتے۔
کیا بھارتی اور افغان میڈیا یہ بیانیہ مفت میں چلا رہاہے۔ ان کا بھارت اور افغانستان کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ پاک فوج سے ملنے والوں کو غدار قرار دیدیا۔ تم ہوکون تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو۔
مزید پڑھیں :ذہنی مریض بیانیہ تخلیق کرتا ہے اور بھارت اس کا سب سے بڑا سہولت کار ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر













