کراچی(اے بی این نیوز) میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے گٹر میں بچے کے گرنے کے معاملے پر معافی مانگ لی۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بچے کے اہلخانہ کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے معاف کر دیں۔ بچے کی والدہ کی چیخوں پر میرے پاس الفاظ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بچے کے دادا انتہائی شفقت سے پیش آئے۔ اور کہا کہ جو عمر بچے کی تھی اس نے اتنا ہی وقت گزارنا تھا۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ افسوسناک واقعہ ننے ابراہیم کے ساتھ پیش آیا۔ اور بحیثیت والد کے ان کے درد کے بارے میں سوچ سکتا ہوں۔ میں اس خاندان کے درد پر اللہ سے ان کے لیے صبر مانگتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں شاہ فیصل کالونی ابراہیم کے گھر پر گیا۔ والد اور دادا سمیت خاندان سے ملاقات کی۔ اور الزام تراشی کے بغیر ان کے خاندان سے معافی مانگی۔ میں نے بچے کے خاندان سے صرف اپنے لیے معافی مانگی۔
میئر کراچی نے کہا کہ اس معاملے پر سیوریج انجینئر کو معطل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ متعلقہ سینئر کنسلٹنٹ، اسسٹنٹ کمشنر، ایس ایس پی اور ڈی سی ایسٹ کو معطل کیا جا رہا ہے۔ مثال اس لیے بنایا جا رہا ہے کہ پورے ملک میں ایسے واقعات نہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ 1122 کا عملہ گراؤنڈ پر، ہمارے سٹی وارڈن گراؤنڈ پر پہنچے لیکن کام نہیں کر پائے۔ قریب میں ہمارا کام چل رہا ہے۔ جہاں سے شاؤل کو لایا گیا لیکن وہ کام نہیں آئی۔ واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اب سوچا جا رہا ہے ایریا کو کارڈن آف کیسے کیا جاسکے اور تمام چیزیں کی جا رہی ہیں۔ کیونکہ انتظامیہ چاہتی ہے کہ مستقبل میں ایسا نہ ہو اسی لیے یہ معطلیاں کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ بچے کے دادا نے مجھ سے کچھ شکایات کی ہیں۔ تاہم اس پورے معاملے پر میں معافی مانگتا ہوں۔ کہ یہ میری غلطی ہے۔ بطور میئر میں کامیاب نہیں ہوا۔ اور برملا ندامت کا اظہار کر رہا ہوں۔ گھر والوں سے بھی معافی مانگی ہے۔ کوشش ہے کہ چیزوں کو درست کر پائیں۔ اور معاملات کو درست سمت کی طرف لے جائیں۔ یہ مثال بنائیں کہ حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے رسپانس فوری ہونا چاہیے۔
میئر کراچی نے کہا کہ بلیم گیم کو نظر انداز کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اس سے عوام کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ جس ریڈ لائن کا ذکر کیا جا رہا ہے، اس کا ادراک ہے۔ اور معطلی تو آغاز ہے، انکوائری جاری ہے۔ جہاں جہاں غیر ذمہ داری ہو گی اسی کے مطابق سزا ہوگی۔
مزید پڑھیں۔افغانستان میں قتل کے مجرم کو اسٹیڈیم میں 80 ہزار سے زائد لوگوں کے سامنے سزائے موت دیدی گئی















