اسلام آباد(اے بی این نیوز)20جولائی 2021ء کو وفاقی دارالحکومت میں قتل کی ایک گھناؤنی واردات نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کررکھ دیا۔ اسلام آباد کے پوش علاقے F7/4 کے ایک گھر میں ظاہر جعفر نامی شخص نے 27سالہ لڑکی نور مقدم کو نہایت بہیمانہ اور ظالمانہ انداز میں قتل کیا۔سفاک قاتل نور مقدم کا سر دھڑ سے جدا کرنے کے بعد اسے فٹبال بنا کر کھیلتا رہا اور جب پولیس اہلکار وہاں پہنچے تو خاصی تگ و دو کے بعد اسے گرفتار کیا گیا۔
مقتولہ کے والد شوکت علی مقدم کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے فروری 2022ء میں ملزم ظاہر جعفر پر اغوا، جبری جنسی زیادتی اور قتل کے جرائم ثابت ہونے پر سزا سنادی۔قتل کے الزام میں سزائے موت جبکہ جبری جنسی زیادتی کے ارتکاب پر 25سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ اس فیصلے کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تو عدالت نے جبری جنسی زیادتی کے جرم کی سزا کو سزائے موت میں بدل دیا اور لڑکی کو اغوا کرنے پر 10سال قید کی سزا دیدی۔یہاں سے معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔ 20مئی 2025ء کو سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے جبری جنسی زیادتی پر سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا اور اغوا کی دفعہ کے تحت 10سال قید کی سزا کو کم کرکے1سال کردیا مگر قتل کے جرم میں دی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا۔
یہ فیصلہ جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس علی باقر نجفی نے سنایا۔مجرم ظاہر جعفر کے وکیل خواجہ حارث احمد ایڈووکیٹ نے نظر ثانی درخواست دائر کردی۔ جب اس پر سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس علی باقر نجفی نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس کیس میں ایک اضافی نوٹ تحریر کیا تھا جو اب سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے،بہتر ہوگا کہ آپ اس اضافی نوٹ کو پڑھ کر دلائل دیں۔اس فیصلے کے نقادوں کا یہ کہناہے اس اضافی نوٹ سے مجرم کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی جو اب وفاقی آئینی عدالت کے جج ہیں،ان کے اس اضافی نوٹ سے جہاں مقتولہ نور مقدم کے والدین کے زخم تازہ ہوگئے ہیں بلکہ وطن عزیز میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
ایک طرف جسٹس علی باقر نجفی کے اضافی نوٹ کا ڈٹ کر دفاع کیا جارہا ہے تو دوسری طرف شدید تنقید کی جارہی ہے۔جسٹس باقر علی نجفی سات صفحات پر مشتمل اس اضافی نوٹ کے دسویں اور آخری نکتے میں مقتولہ کی کردار کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ موجودہ معاملہ بالائی طبقے میں پھیلتی ہوئی ایک بُرائی کا براہِ راست نتیجہ ہے جسے ہمLiving relationshipکے نام سے جانتے ہیں، جس میں سماجی پابندیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف ملکی قانون بلکہ اسلام کے شریعتی شخصی قانون کی بھی خلاف ورزی کی جاسکے، جو دراصل اللہ تعالیٰ کیخلاف بغاوت ہے۔
نئی نسل کو اس کے بھیانک نتائج کو ضرور نوٹ کرنا چاہئے، جیسا کہ موجودہ کیس میں سامنے آیا ہے، جو سماجی مصلحین کیلئے بھی ایک موضوع ہے کہ وہ اسے اپنے حلقوں میں زیرِ بحث لائیں۔“ ”لواِن ریلیشن شپ“ کا مطلب ہے بغیر نکاح یا شادی کے ایک ساتھ رہنا۔ اس اضافی نوٹ کے ذریعے جج صاحب نے نہ صرف نور مقدم پر بہتان لگایا ہے بلکہ مجرم کے نہایت ظالمانہ فعل کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مظلوم عورت جسے نہایت بیدردی سے قتل کردیا گیا،وہ اب اپنے حق میں کوئی دلیل، ثبوت یا گواہی پیش کرنے سے قاصر ہے تو پھر اس کا کردار زیر بحث کیسے لایا جاسکتا ہے؟ انصاف کی کرسی پر متمکن جج صاحبان کا فرض سائل کو انصاف فراہم کرنا اور الزام ثابت ہونے پر سزا دینا ہے یا پھر جرم کے سرزد ہونے کی وجوہات و اسباب بیان کرنا اور مجرم کے حق میں دلائل تراشنا؟
جج کا کام انصاف کے ذریعے سماج کو جرائم سے پاک کرنا ہے یا پھر مصلح،مربی اور مبلغ کا روپ دھار کر پرہیزگاری کا درس دینا؟جو بزعم خود پاک باز جسٹس باقر علی نجفی کے اضافی نوٹ کا دفاع کر رہے ہیں، انکی دلیل یہ ہے کہ ”لِواِن ریلیشن شپ“ایک سماجی برائی ہے تو اسکی حوصلہ شکنی کیوں نہ کی جائے۔اس حوالے سے بندہ ناچیز کا استدلال یہ ہے کہ ”لِو اِن ریلیشن شپ“یہاں زیر بحث ہی نہیں۔آپ نے اس پر مہم چلانی ہے،معاشرے کی اصلاح کرنی ہے،ضرور کریں لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے قانونی نظام میں وکلائے صفائی کو مدعی کے کردار پر اُنگلی اُٹھانے کی اجازت نہیں تو مقدمے کا فیصلہ کر نے والے جج کو یہ اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کہ وہ کسی خاتون کی کردار کشی کرے؟جسٹس باقر علی نجفی کا اضافی نوٹ نہ صرف حقائق کے منافی اورنہایت تکلیف دہ ہے بلکہ جج صاحبان کے کوڈ آف کنڈکٹ کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
جسٹس ہمارے معاشرے میں مظلوم کو ہی مطعون کرنے کا چلن ہے کہ خواتین پردہ نہیں کرتیں،گھر سے اکیلے نکلتی ہیں اسلئے انکے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔جیسے کہا جاتا ہے کہ رات کے وقت گھر سے نکلنے کی ضرورت ہی کیا تھی،یہ نہ صرف اسی طرح بلکہ اس سے کہیں سنگین تر وِکٹم بلیمنگ ہے۔اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ”لِواِن ریلیشن شپ“کی بات محض بہتان ہے۔
آپ مقدمہ کی FIRدیکھیں،تفتیش ملاحظہ کریں یا پھر عدالتی کارروائی کا ریکارڈ کھنگال لیں،کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ نور مقدم ”لِو اِن ریلیشن شپ“ میں رہ رہی تھی۔ایف آئی آر کے مطابق نور مقدم 19جولائی 2021ء سے لاپتہ تھی۔سی سی ٹی وی فوٹیج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کئی بار اس گھر سے باہر جانے کی کوشش کی مگر مجرم ظاہر جعفر اسے گھسیٹ کر واپس لے گیا۔گویا اسے وہاں یرغمال بنا کر حبس بے جا میں رکھا گیا تھااور جج صاحب اسے ”لِو اِن ریلیشن شپ“قرار دے رہے ہیں۔ شریعت کی رو سے یہ الزام قذف شمار ہوتا ہے اور اگر الزام ثابت نہ کیا جاسکے تو ملزم کوڑوں کی سزا کا حقدار ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں۔خواتین کی خفیہ ویڈیوز بنانے والا اسپتال کا سی سی ٹی وی آپریٹر گرفتار















