اہم خبریں

4 سال کے دوران ملک بھر میں 7 ہزار 500 سے زائد خواتین کے قتل کا انکشاف

اسلام آباد(اے بی این نیوز)2021 سے 2024 کے دوران 4 سال میں ملک بھر میں 7 ہزار 500 سے زائد خواتین کو قتل کیا گیا، جن میں سے ایک ہزار 553 کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

نجی چینل کی رپورٹ کے مطابق یہ ہولناک اعداد و شمار جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق اعظم نذیر تارڑ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رکن نعیمہ کشور خان کے ایک تحریری سوال کے جواب میں پیش کیے۔

وفاقی وزیر کے مطابق یہ ڈیٹا نیشنل پولیس بیورو نے مرتب کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چار سال کے دوران 17 ہزار 771 خواتین کے ریپ اور گینگ ریپ کے کیسز رپورٹ ہوئے، 121 خواتین کو حراست کے دوران جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اسی عرصے میں 9 ہزار 799 خواتین کو گھروں کے اندر مردوں کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے 632 کیسز رپورٹ ہوئے۔

اعداد و شمار کے مطابق 4 سال میں خواتین پر تشدد کے مجموعی طور پر ایک لاکھ 73 ہزار 367 واقعات ملک بھر میں رپورٹ ہوئے۔

اگرچہ حکومت نے ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کرنے کے دعوے کیے، مگر ڈیٹا کے مطابق یہ واقعات ہر سال بڑھتے گئے، 2021 میں 30 ہزار 757 کیسز، 2022 میں 35 ہزار 477، 2023 میں 46 ہزار 36 اور 2024 میں 61 ہزار 997 کیسز رپورٹ ہوئے۔

ڈیٹا کے مطابق سب سے زیادہ قتل سال 2023 میں ہوئے، جب 2 ہزار 459 خواتین قتل کی گئیں، جن میں 392 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات شامل تھے۔

مزید برآں تیزاب پھینکنے کے 127 کیسز بھی اس عرصے میں رپورٹ ہوئے۔

چار سال کے دوران خواتین کے اغوا کے واقعات کی تعداد بھی انتہائی زیادہ رہی، اور 89 ہزار 599 کیسز رپورٹ ہوئے۔

وفاقی وزیر، اعظم نذیر تارڑ (جو قانون و انصاف کے وزیر بھی ہیں) نے وضاحت کی کہ خواتین پر تشدد کے واقعات بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں زیادہ دیکھے گئے، جو معاشرتی رویوں اور قانون پر کمزور عملدرآمد کا نتیجہ ہیں، تاہم ان مسائل کے حل کے لیے مسلسل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی شانتی اور راولپنڈی کی سدرہ عرب جیسے واقعات پر قانون کے مطابق کارروائی کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ حکومت خواتین پر تشدد کے معاملے کو سنگین مسئلہ سمجھتی ہے، رپورٹ ہونے والے کیسز میں صوبہ وار اتار چڑھاؤ تو نظر آتا ہے، لیکن زیادہ آگاہی، انصاف کے نظام تک بہتر رسائی اور میڈیا کی بڑھتی کوریج کی وجہ سے رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ عوام میں نظام پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔

اسمبلی کی کارروائی

سوال و جواب کے سیشن کے آغاز میں تحریک انصاف کے اراکین نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا اور صرف اقبال آفریدی کو چھوڑ دیا تاکہ وہ ایوان کی کورم کی کمی کی نشاندہی کر سکیں اور کارروائی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں۔

تاہم ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفیٰ شاہ نے گنتی کے بعد ایوان کا کورم پورا قرار دیا، یاد رہے کہ کورم کے لیے کم از کم 84 ارکان کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔

بعد ازاں، تحریک انصاف کے ارکان واپس ایوان میں آگئے اور کارروائی میں شریک ہوئے۔

پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت نے توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے وزرا کی غیرحاضری پر افسوس کا اظہار اور کہا کہ ایوان میں صرف چند وزرا موجود ہیں۔

دریں اثنا وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے 2 بل پیش کیے، جن میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2025، نیٹنگ آف فنانشل ارینجمنٹس بل 2025 شامل ہیں، دونوں بلز کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اگلا اجلاس پیر کی شام ساڑھے 4 بجے ہوگا۔

مزید پڑھیں۔کوئٹہ اور خیبر میں فائرنگ اور دستی بم پھٹنے سے 6 افراد جاں بحق

متعلقہ خبریں