اسلام آباد ( اے بی این نیوز )فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے سیاسی رابطے اور مشاورت جاری ہے۔
مولانا سنجیدہ سیاست دان ہیں، وہ ترمیم کا خود جائزہ لیں گے۔ ترمیم پر نہ کوئی منظوری دی گئی نہ مخالفت، بات چیت مثبت رہی۔
تمام نکات کو سمجھنے اور دیکھنے کا عمل جاری ہے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ وہ ہر شق کو غور سے دیکھیں گے۔
پاکستان کے مفاد میں آنے والی تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ آئینی ترمیم سے متعلق باضابطہ مسودہ حکومت پیش کرے گی۔ ترمیم پارلیمانی طریقہ کار کے تحت سامنے لائی جائے گی۔ فی الحال بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہے، کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
ملاقات کا ماحول خوشگوار اور مثبت رہا۔
ہمیشہ کی طرح ملاقات خیر سگالی کے جذبے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ ہم مفادات کی سیاست نہیں کرتے، قومی مفاد اولین ترجیح ہے۔
سیاسی رابطے جاری رہیں گے تاکہ قومی اتفاق رائے پیدا ہو۔ 27ویں آئینی ترمیم پر تمام فریقین سے مشاورت کا سلسلہ بڑھایا جا رہا ہے۔
ملک کی سلامتی اور کامیابی کیلئے ہر ضروری اقدام کیا جائے گا۔ انتظامی تبادلوں اور تقرریوں میں شفافیت ناگزیر ہے۔ انتظامی نظام میں میرٹ اور انصاف کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔ سیاست کیلئے عمر کی حد 50 سال ہو تو 70 سال تک کے افراد کیوں نہیں؟
تجربہ کار سیاست دانوں کو عمر کی بنیاد پر نظر انداز نہ کیا جائے۔ وقت کے ساتھ سیاسی، سماجی اور ٹیکنالوجیاتی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ ملکی ترقی کے لیے پالیسیوں کو بدلتے حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ 18ویں ترمیم کے بعد اختیارات واپس نہیں لیے جا رہے۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی توازن پر اتفاق رائے ضروری ہے۔ دو ہزار ارب روپے کے فنڈز کی شفاف تقسیم قومی مفاد میں ہے۔ قوم کے اتحاد اور اتفاق سے ہی مسائل کا حل ممکن ہے۔
آئینی ترمیم کے حوالے سے سیاسی رابطے اور مشاورت جاری ہے۔ مولانا سنجیدہ سیاست دان ہیں، وہ ترمیم کا خود جائزہ لیں گے۔ ترمیم پر نہ کوئی منظوری دی گئی نہ مخالفت، بات چیت مثبت رہی۔ تمام نکات کو سمجھنے اور دیکھنے کا عمل جاری ہے۔ مولانا نے کہا کہ وہ ہر شق کو غور سے دیکھیں گے۔
پاکستان کے مفاد میں آنے والی تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ آئینی ترمیم سے متعلق باضابطہ مسودہ حکومت پیش کرے گی۔ ترمیم پارلیمانی طریقہ کار کے تحت سامنے لائی جائے گی۔ فی الحال بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہے، کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
ملاقات کا ماحول خوشگوار اور مثبت رہا۔ ہم مفادات کی سیاست نہیں کرتے، قومی مفاد اولین ترجیح ہے۔ سیاسی رابطے جاری رہیں گے تاکہ قومی اتفاق رائے پیدا ہو۔ 27ویں آئینی ترمیم پر تمام فریقین سے مشاورت کا سلسلہ بڑھایا جا رہا ہے۔
ملک کی سلامتی اور کامیابی کیلئے ہر ضروری اقدام کیا جائے گا۔ انتظامی تبادلوں اور تقرریوں میں شفافیت ناگزیر ہے۔ انتظامی نظام میں میرٹ اور انصاف کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔ سیاست کیلئے عمر کی حد 50 سال ہو تو 70 سال تک کے افراد کیوں نہیں؟
تجربہ کار سیاست دانوں کو عمر کی بنیاد پر نظر انداز نہ کیا جائے۔ وقت کے ساتھ سیاسی، سماجی اور ٹیکنالوجیاتی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ ملکی ترقی کے لیے پالیسیوں کو بدلتے حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
18ویں ترمیم کے بعد اختیارات واپس نہیں لیے جا رہے۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی توازن پر اتفاق رائے ضروری ہے۔ دو ہزار ارب روپے کے فنڈز کی شفاف تقسیم قومی مفاد میں ہے۔ قوم کے اتحاد اور اتفاق سے ہی مسائل کا حل ممکن ہے۔
ٹی ایل پی کے ساتھ طے شدہ معاملات کے مطابق پیشرفت جاری ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اسی انداز میں آگے بڑھے گا؟اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آنے والے شہریوں سے سخت رویہ کیوں؟احتجاج عوام کا آئینی حق ہے، اس پر تشدد قابلِ افسوس ہے۔ میرے ٹی ایل پی سے ذاتی تعلقات 2018 سے قائم ہیں ۔
سیاسی اختلافات کے باوجود مکالمے اور رابطے ضروری ہیں۔ ریاستی اداروں کو عوامی احساسات کا احترام کرنا چاہیے۔ مسائل کے حل کیلئے تصادم نہیں، بات چیت کا راستہ اپنانا ہوگا۔
سیاسی استحکام کیلئے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر اٹھنے والے شہریوں کا ردِ عمل شفاف ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو سڑکوں کی سیاست میں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ عوامی اعتراضات کی صورت میں ریاستی اداروں کو اعتدال سے ردعمل دینا چاہیے۔
قابل اعتماد بیوروکریسی اور میرٹ کی بنیاد پر تعیناتیاں وقت کی ضرورت ہیں۔ سیاستدانوں کی عمر اور تجربہ نہ صرف نظریاتی بلکہ عملی بنیاد پر اہم ہے۔ نئے سیاسی لیڈر اور کارکنان ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کراچی سے اسلام آباد تبادلہ فیصلے عوامی توقعات کو مد نظر رکھ کر کرنا چاہیے۔
مزید شفافیت کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت وقت کی ضرورت ہے۔ 26ویں ترمیم کے بعد بھی عوام کو اعتماد میں لینا لازمی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو مناسب پلیٹ فارم اور شراکت کا موقع دیا جائے۔ ملکی سیاسی استحکام کیلئے اتفاقِ رائے اور جامع مکالمہ ناگزیر ہے۔
مولانا نے آئینی ترمیم پر غور و فکر اور گفتگو کا عندیہ دیا ہے۔ حکومت آئینی عمل کے اندر رہتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔ سیاستدانوں کو عوامی توقعات کے مطابق تیاری کرنا ہو گی۔
جماعتیں اپنا موقف واضح کریں، عوام کو معلومات فراہم کریں۔ قابل قبول شفافیت اور مشاورت کے بغیر فیصلہ عوامی اعتماد سے خالی ہو گا۔
26ویں ترمیم کے بعد 27ویں ترمیم پر اہم گفتگو شروع ہو چکی ہے۔
مزید پڑھیں :افغان باشندوں کو کرایہ پر رہائش دینے والوں کے خلاف گھیرا تنگ،مقدمات درج















