اہم خبریں

ہر طاقتور کل کا کمزور اور ہر کمزور کل کا طاقتور بن سکتا ہے، محمد علی درانی

اسلام آباد ( اے بی این نیوز       )سینئر سیاستدان محمد علی درانی نے کہا کہ اسلام کی بنیاد محبت، عفو اور درگزر پر ہے، یہ تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔ ان کے مطابق معاشرے میں طاقتور ہو یا کمزور، دونوں کو معافی اور برداشت کا راستہ اپنانا ہوگا، کیونکہ ہر طاقتور کل کا کمزور اور ہر کمزور کل کا طاقتور بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم کے مسائل کا حل لڑائی جھگڑوں میں نہیں بلکہ میل جول، مکالمے اور برداشت میں ہے۔ جمہوریت کا اصل راستہ عدالت اور ووٹ کے ذریعے ہی نکلتا ہے۔ عوام نے جسے ووٹ دیا وہ اقتدار میں نہیں، اور جسے نہیں دیا وہ آج بااختیار ہے، یہی ہمارے مسائل کی جڑ ہے۔

محمد علی درانی نے احتساب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کی اصلاح درست اور شفاف احتساب کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر ماضی کے احتساب میں الجھنے سے کوئی راہِ نجات نہیں نکلتی۔ ہر آنے والا حکمران پچھلے کو چور کہتا ہے، اگر سزا دینی ہے تو موجودہ جرم پر دی جائے، پرانے معاملات کو بھلا دیا جائے۔ ان کے مطابق سزا وہی دے سکتا ہے جسے عوام نے اختیار دیا ہو، اور یہ اختیار صرف عدالت اور عوام کے پاس ہے۔

وہ اے بی این نیوز کے پروگرام تجزیہ میں گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا کہ 8 فروری کو عوامی عدالت نے اپنے زندہ ہونے کا فیصلہ دے دیا ہے۔ سیاست میں اصل کھیل مقبولیت کا نہیں بلکہ قبولیت کا ہے، اور اگر ذمہ دار عہدوں پر بیٹھ کر کھیل کھیلا جائے تو انصاف کمزور ہو جاتا ہے۔

محمد علی درانی نے کہا کہ یہ ملک مڈل کلاس کے کندھوں پر کھڑا ہے، جبکہ امیر طبقہ بیرون ملک جائیدادوں میں مصروف ہے اور غریبوں کے گھر کھنڈر بنتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق حقیقی تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب طاقتور اور کمزور سب ایک ہی معیار پر پرکھے جائیں۔

پی ٹی آئی کور کمیٹی کے رکن اور قانونی ماہر ابوذر سلمان نیازی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آرٹیکل 184(3) کی درخواست کو انفرادی نہیں بلکہ عوامی مفاد کا کیس سمجھا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق ہائیکورٹ کے ججز کی پٹیشن کو رجسٹرار کی جانب سے انفرادی معاملہ قرار دینا ایک غیر آئینی اور غیر قانونی تشریح ہے۔

ابوذر نیازی نے کہا کہ چیف جسٹس کے اختیارات پر سوال اٹھانا ججز کے لیے آسان نہیں ہوتا، مگر جب آئین اور انصاف کی بالادستی کا معاملہ ہو تو یہ بحث ناگزیر ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ججز کے پاس اس وقت واحد راستہ چیمبر اپیل میں جانے کا ہے۔

وکلا برادری پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج بیشتر وکلا ذاتی مفادات اور پلاٹوں کی سیاست میں الجھ چکے ہیں، جس کے باعث رول آف لا، جمہوریت اور آزاد عدلیہ پر توجہ کم ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق اگر وکلا اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف نہ لوٹے تو عدلیہ پر عوامی اعتماد مزید متاثر ہوگا۔

مزید پڑھیں :سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل انٹرا کورٹ اپیلوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا،جا نئے کیا

متعلقہ خبریں