اسلام آباد (اے بی این نیوز) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جائزہ و عملدرآمد کمیٹی کا اجلاس کنوینر طارق فضل چوہدری کی زیر صدارت ہوا، جس میں وزارت داخلہ سے متعلق 2000 سے 2010 تک کے آڈٹ اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے دوران پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی میں 2006 میں نصب کیے گئے مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ سسٹم کے عدم استعمال کا معاملہ زیر غور آیا۔ پاسپورٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ بھارتی حکام کسی بھی قسم کا نیٹ ورک چلانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، جس کی وجہ سے یہ سسٹم مؤثر طور پر استعمال نہ ہوسکا۔ حکام کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ سرکاری افسر کے چار ماہ کے بچے کا پاسپورٹ بھی جاری نہیں ہوسکا۔ ان کے مطابق اگر انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا تو ڈیٹا لیک ہونے کا خدشہ رہتا۔ کمیٹی نے سسٹم کی واپسی کا عمل جلد مکمل کرنے کی ہدایت دی اور معاملہ نمٹا دیا۔
اجلاس میں 32 ہزار 674 پاسپورٹ بکلیٹس چوری ہونے کے آڈٹ اعتراض پر بھی بحث ہوئی۔ کنوینر کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ یہ پاسپورٹ کہاں محفوظ کیے جاتے ہیں کہ اس قدر بڑی تعداد میں آسانی سے چوری ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ افغانستان کے شہریوں نے انہی بکلیٹس پر جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنائے ہوں گے۔
پاسپورٹ حکام نے بتایا کہ تمام چوری شدہ پاسپورٹ نمبرز پی سی ایل میں ڈال کر بلاک کر دیے گئے ہیں اور یہ بکس ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ ہو چکی ہیں۔ حکام نے مزید کہا کہ یہ پاسپورٹ 1994 سے 2000 کے دوران 25 مختلف دفتروں سے چوری ہوئے۔ نادرا حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ نیا سسٹم متعارف کروا دیا گیا ہے اور جتنے شناختی کارڈ مشکوک لگے ان کی انکوائری مکمل کر لی گئی ہے۔
کنوینر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ملک گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے، اس لیے اس معاملے کی انکوائری رپورٹ کمیٹی کے ساتھ فوری طور پر شیئر کی جائے۔ کمیٹی نے پاسپورٹ چوری کے کیس کی انکوائری رپورٹ طلب کرتے ہوئے اجلاس کا یہ حصہ نمٹا دیا۔
مزید پڑھیں :عمران خان کی ہدایات ہوا میں،نئی سیاسی مشکل پیدا،پارٹی قیادت تضادات کا شکار