اہم خبریں

آئی جی سندھ عدالتی احکامات کے باوجود انڈرگریجویٹ ایس ایچ اوز ہٹانے میں ناکام

کراچی ( اے بی این نیوز)کراچی کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ عدالتی احکامات کے باوجود انڈر گریجویٹ ایس ایچ اوز کو ہٹانے میں ناکام رہے، آئی جی سندھ کے پہلے دو احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا تاہم 9 ستمبر کو تیسرا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ کے پہلے دو احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا جب کہ تیسرا نوٹیفکیشن بھی 9 ستمبر کو جاری کیا گیا، 9 ستمبر 2025 کو جاری ہونے والے نئے نوٹیفکیشن کے مطابق ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کی تقرری کے لیے خصوصی تربیتی ورکشاپ کا انعقاد لازمی قرار دیا گیا ہے اور یہ لازمی کورس سندھ کی تمام پولیس رینجز میں فوری طور پر نافذ العمل ہے۔

واضح رہے کہ بیشتر ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کی ملازمتیں مکمل ہونے میں ایک سے دو سال باقی رہ گئے ہیں اس لیے نئے کورس آرڈر کے اجرا پر ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز میں تشویش پائی جاتی ہے۔

کئی تھانہ انچارجوں کا کہنا تھا کہ وہ ایس ایچ او بننے کے لیے امتحان اور انٹرویو پاس کرتے ہیں لیکن سفارش اور دیگر لوازمات کے بغیر ایس ایچ او بننا اب بھی ناممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیشتر تھانوں میں انڈر گریجویٹ پولیس افسران اب بھی ایس ایچ اوز کے طور پر تعینات ہیں حالانکہ آئی جی سندھ نے عدالتی حکم پر 3 ستمبر کو آرڈر نمبر 19344-79 جاری کیا تھا کہ انڈر گریجویٹ ایس ایچ اوز کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔

گزشتہ ادوار میں مڈل پاس کانسٹیبلز اور انٹر پاس اے ایس آئیز کو محکمے میں بھرتی کیا گیا تھا، پچھلے ادوار کے کانسٹیبلز اور اے ایس آئیز کو اب سب انسپکٹر، انسپکٹر اور ڈی ایس پیز پر ترقی دے دی گئی ہے اور وہ اپنی ملازمت کے تقریباً آخری مراحل سے گزر رہے ہیں۔

کئی سب انسپکٹرز اور انسپکٹرز اب بھی اپنے آبائی اضلاع میں بطور ایس ایچ او تعینات ہیں حالانکہ ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ نے 15 اکتوبر 2024 کو انسپکٹر جنرل آف پولیس کے ذریعے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اگر کسی کو آبائی ضلع میں ایس ایچ او تعینات کیا جاتا ہے تو یہ پولیس رول 1934 کی خلاف ورزی ہوگی، اس کے باوجود زیادہ تر تھانوں میں تعینات ایس ایچ اوز اسی ضلع میں تعینات ہیں جہاں وہ رہائش پذیر ہیں۔

اس حوالے سے گزشتہ ادوار میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہونے والے ڈی ایس پیز اور انسپکٹرز کا کہنا تھا کہ تمام نئے رول رینکرز پولیس افسران کو ہراساں کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، پی ایس پی افسران کے لیے کوئی کورس لازمی نہیں، تاہم اس کی پہنچ زیادہ ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب محکمے میں نوکری ملنا مشکل ہو گیا ہے، کسی علاقے میں کوئی واقعہ ہو جائے تو ذمہ داری علاقے کے ایس ایچ او پر ڈال دی جاتی ہے اور کوئی خود کو بچاتا ہے، کیا کبھی کسی ایس ایس پی یا ڈی آئی جی نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے یا اسے ذمہ دار ٹھہرا کر بلیک کمپنی کو بھیج دیا گیا ہے۔

ایک حاضر سروس ڈی ایس پی نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ نیب کو ہر پولیس افسر کی بیوی اور بچوں کے اثاثوں کو بھی چیک اینڈ بیلنس کے تحت رکھنا چاہیے تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس میں کتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں‌:درآمدی ایل این جی گھریلو صارفین پر کتنی لاگت آئے گی؟

متعلقہ خبریں