لاہور(اے بی این نیوز)گندم اور آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کی کوشش کے طور پر پنجاب حکومت نے مداخلت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے ذخائر سے گندم جاری کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری شعبے کی گندم کے لیے فی 40 کلوگرام 2 ہزار 900 روپے کی مقررہ قیمت تجویز کی ہے۔
نجی چینل کی رپورٹ کے مطابق کموڈٹیز اینڈ پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ (سابق فوڈ ڈپارٹمنٹ) کے ترجمان نے منگل کو بتایا کہ ایک سمری وزیر اعلیٰ مریم نواز کو منظوری کے لیے بھیجی جا رہی ہے جس میں یہ ریلیز پرائس تجویز کی گئی ہے۔
فی الحال محکمے کے پاس پچھلے سال کی خریداری سے 8 لاکھ 90 ہزار ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے، اوپن مارکیٹ میں قیمتیں 3 ہزار 100 روپے فی 40 کلوگرام سے تجاوز کر چکی ہیں، جس نے عوام کی قوتِ خرید کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے، اور روٹی کی قیمتیں بھی دباؤ میں ہیں، کیوں کہ تندور مالکان نے آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث فی روٹی کی قیمت 2 روپے بڑھانے کا عندیہ دیا ہے، اس وقت ایک روٹی کی قیمت 14 روپے ہے۔
پاکستان نے 25-2024 کے سیزن میں 2 کروڑ 20 لاکھ 50 ہزار ایکڑ سے 2 کروڑ 80 لاکھ 98 ہزار ٹن گندم کی کٹائی کی تھی، جو کہ پیداواری ہدف 3 کروڑ 30 لاکھ 58 ہزار ٹن اور گزشتہ سال کی پیداوار 3 کروڑ 10 لاکھ 80 ہزار ٹن سے کافی کم ہے۔
25 کروڑ سے زائد آبادی اور فی کس سالانہ 115 کلوگرام گندم کے استعمال (گھریلو آمدنی و اخراجات سروے 19-2018 کے مطابق) کے پیش نظر موجودہ پیداوار ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے، مزید 12 لاکھ ٹن گندم بیج کے لیے بھی درکار ہے، جب کہ پیداوار کا ایک حصہ مویشی اور پولٹری فیڈ میں بھی استعمال ہوتا ہے، جو اکثر مکئی کے متبادل کے طور پر زیادہ سستا سمجھا جاتا ہے۔
اس سیزن میں بین الاقوامی ڈونرز کے ساتھ معاہدے کے تحت، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گندم کی خریداری سے دستبردار ہو کر کم از کم امدادی قیمت مقرر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو کہ دہائیوں پر محیط منڈی کے ضابطوں سے انحراف ہے۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز نے الزام لگایا کہ مَافیا گندم کے کاروبار میں ہیرا پھیری کر رہا ہے اور سرمایہ کار کسانوں سے سستی گندم خرید کر بعد میں حکومت کو مہنگے داموں پیش کرتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سیزن میں دیکھنے میں آیا جب خریداری کی قیمتیں 4 ہزار روپے فی من تک پہنچ گئی تھیں۔
اب تک حکومتیں سالانہ 50 لاکھ سے 70 لاکھ ٹن گندم خریدتی رہی ہیں، صرف پنجاب ہی 40 لاکھ ٹن سے زائد گندم خریدتا تھا، تاکہ غذائی سلامتی کے لیے اسٹریٹجک ذخائر قائم کیے جا سکیں اور بفر اسٹاک کے طور پر استعمال ہوں۔
گندم کے یہ حکومتی ذخائر عام طور پر فلور ملز کو ستمبر یا اکتوبر میں جاری کیے جاتے تھے، یا پھر ضرورت پڑنے پر پہلے بھی دے دیے جاتے تھے، تاکہ قیمتوں کو مستحکم رکھا جا سکے، موجودہ مداخلت کا فیصلہ حکومت پر
بڑھتے ہوئے دباؤ کی عکاسی کرتا ہے تاکہ غذائی مہنگائی پر قابو پایا جا سکے، کیوں کہ براہِ راست خریداری کا نظام فی الحال موجود نہیں ہے۔
مزید پڑھیں۔امریکا کے شہر منیپولس میں کیتھولک اسکول میں فائرنگ،3 بچے جان سے گئے، متعدد زخمی