اہم خبریں

یہ اسمبلی نمائندے نہیں، ہارے ہوئے افراد کا لشکر مسلط ہے،بابر اعوان

اسلام آباد ( اے بی این نیوز       )سابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان کو نارتھ کوریا کے ماڈل کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور جبری گمشدگیوں کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج اسمبلی میں عوامی نمائندے نہیں بلکہ ہارے ہوئے افراد کا لشکر مسلط ہے۔ جس نے عوام سے ووٹ لیا وہ ایوان میں نہیں پہنچا بلکہ اس کی جگہ کسی اور کو بٹھا دیا گیا۔ بابر اعوان نے کہا کہ ایسی قانون سازی آئینی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اور تحریک انصاف نہ پیچھے ہٹے گی، نہ وکلا جھکیں گے اور نہ قوم خاموش ہوگی۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں بولنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ بابر اعوان نے مزید کہا کہ نواز شریف کے دور میں انسداد دہشتگردی ایکٹ ورکرز کی آواز دبانے کے لیے استعمال ہوا اور آج بھی یہی حربے آزما کر عوام کی رائے کو کچلا جا رہا ہے۔ جبری گمشدگیوں کو قانونی شکل دی جا رہی ہے۔ یہ اسمبلی نمائندے نہیں، ہارے ہوئے افراد کا لشکر مسلط ہے۔ جس نے ووٹ لیا وہ ایوان میں نہیں جیتا کوئی اور، بٹھایا کسی اور کو گیا۔
قانون سازی آئینی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہم سی سی پی ماڈل یا نارتھ کوریا ماڈل کو پاکستان پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان میں بولنے کا حق چھینا جا رہا ہے، ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ریاستی کنٹرول کو قانونی تحفظ دینا آئین کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیشہ رہیں گے لیکن تاریخ گواہ ہے، ایسا کبھی ہوا نہیں۔ نواز شریف کا انسداد دہشتگردی ایکٹ ورکرز کی آواز دبانے کیلئے استعمال ہوا۔ ریلی کو دہشت گردی قرار دینا ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ نیب آرڈیننس 1997 جس میں نوازشریف خود بھی ایک دن پھنسے۔
نوازشریف جنرل مشرف کے “موسم” میں ڈیل لے کر باہر چلے گئے۔ نوازشریف آج قانون کے ٹھیکے دار بنے بیٹھے ہیں۔ یہ3 سال نہیں، اصل ایشو ہے ان کا قوم سے خوفزدہ ہونا۔ یہ پاکستان کے نوجوانوں سے، ووٹر سے، عوام کی آواز سے ڈرتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں عوام باہر نہ نکلے، بولے نہیں، احتجاج نہ کرے۔ یہ تینوں چیزیں آئین میں بنیادی حقوق کے طور پر درج ہیں۔ یہ ریاست کو قید خانہ بنانا چاہتے ہیں، ہم بننے نہیں دیں گے۔ تحریک انصاف نہ پیچھے ہٹے گی، نہ وکلا جھکیں گے، نہ قوم خاموش ہو گی۔ آج بانی پی ٹی آئی نے پھر قوم کے لیے ایک نئی مثال قائم کر دی۔ حقیقی آزادی صرف کسی ایک فرد کیلئے نہیں، پورے پاکستان کے عوام کیلئے ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے پاس اب کوئی حکومتی اخلاقی جواز یا آپشن باقی نہیں بچا۔

عدالتوں میں انصاف نہیں مل رہا، کیسز لٹکائے جا رہے ہیں، جیسے توشہ خانہ کیس ہے۔ عدالتیں کیسز کو جان بوجھ کر مؤخر کر رہی ہیں، تاکہ انصاف نہ ہو سکے۔ 14 دن میں ملزم کو عدالت میں پیش نہ کرنا قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سابق وزرائے اعظم، صدور کے اوپن ٹرائل ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی کے کیسز کیوں خفیہ رکھے جا رہے ہیں؟۔ یہ پورا نظام، آئین، اور عدل کسی “فرد” کا قیدی بن چکے ہیں۔

پروگرام میں شریک سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی موجودہ قانون سازی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بل عجلت میں بدنیتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور یہ دراصل قانون سازی کا قتل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 9 اور 10-A کی خلاف ورزی کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ اسمبلی کے آخری دن بل پیش کرنا اس بدنیتی کی علامت ہے کہ حکومت جمہوریت کو روندنا چاہتی ہے۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پولیس کو 90 دن کی غیر مشروط گرفتاری کا اختیار دینا آئین سے انحراف ہے اور یہ عمل جمہوریت کے بجائے فاشزم کو فروغ دے گا۔
یہ بل عجلت میں بدنیتی سے پیش کیا گیا، قانون سازی کا قتل ہے۔ آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی سےعوام کا بنیادی حق پامال ہو رہا ہے۔ اسمبلی کے آخری دن بل پیش کرنا بدنیتی کی علامت ہے۔
پارلیمان کو بلڈوز کرنے کا مطلب ہے جمہوریت کو روندنا جائے۔ یہ قانون نہیں، پاکستان کی پارلیمانی وقار کے خلاف ایک سازش ہے۔ اگر عدالت نے رد نہ کیا تو پاکستان کے بنیادی حقوق دفن ہو جائیں گے۔ اسمبلی کو خاموش کرا کے بل پاس کرنا فاشزم ہے، قانون سازی نہیں۔
ایسی پارلیمان عزت نہیں، افسوس کی مستحق ہے۔ جمہوریت کو سمجھوتے اور شارٹ کٹس سے نہیں بچایا جا سکتا۔ ریاست کو آئین سے بالاتر کرنے کی ہر کوشش ناقابل قبول ہے۔ قانون سازی کا مقصد انتقام نہیں، استحکام ہونا چاہیے۔ آرٹیکل 9 اور 10-A کی خلاف ورزی پر خاموشی خطرناک ہوگی۔ قانون وقتی نہیں، اصولی بنیاد پر بنتا ہے۔ پولیس کو 90 دن کی غیر مشروط گرفتاری کا اختیار دینا آئین سے انحراف ہے۔ جمہوریت میں خوف کی بنیاد پر قانون سازی نہیں کی جاتی۔
نوآبادیاتی دور کے قوانین کو نئے پاکستان میں جگہ نہیں دی جا سکتی۔
اگر قانون سب کے لیے ہے تو اس پر مدت کیوں لگائی گئی؟قانون کے نام پر آئینی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ عدالتوں کو آئین کے محافظ کے طور پر کردار ادا کرنا ہوگا۔ سیاسی اختلاف رائے کو جرم بنانا جمہوریت کے لیے زہر ہے۔ پارلیمان کو قانون سازی میں وقار، شفافیت اور مشاورت کا خیال رکھنا ہوگا۔ ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ قانون سازی کسی کے خلاف ہتھیار بنائی جا رہی ہے۔
پارلیمان اگر خود کو کمزور کرے گی تو اداروں کا توازن بگڑ جائے گا۔ ملک کو قانون سے نہیں، قانون کے غلط استعمال سے خطرہ ہے۔

وفاقی وزیر امیر مقام نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حالیہ قدرتی آفات کے نقصانات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ پہاڑی علاقوں میں سڑکیں مکمل تباہ ہو چکی ہیں اور آمدورفت منقطع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور عوام کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف خود بحالی کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں جبکہ تمام ادارے متاثرہ علاقوں میں ریلیف اور ریسٹوریشن پر فوکس کیے ہوئے ہیں۔ امیر مقام نے مزید کہا کہ یہ تباہی تاریخ میں بہت کم دیکھی گئی لیکن ہم کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے اور متاثرہ عوام کو ان کا حق ضرور دلایا جائے گا۔

ابھی تک متعدد افراد لاپتہ ہیں، ریسکیو اور تلاش کا عمل جاری ہے۔ قدرتی آفت میں جانی و مالی نقصانات بہت زیادہ ہوئے۔ ہل ایریاز میں سڑکیں مکمل تباہ ہو چکی ہیں، آمد و رفت منقطع ہے۔
ریاست تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے، عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ بجلی، پانی، سڑکیں، ہر نظام شدید متاثر ہوا ہے۔ تمام ادارے ریسٹوریشن پر فوکس کیے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف خود روزانہ بحالی کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ آج بھی وزیراعظم کی زیر صدارت زوم میٹنگ ہوئی۔
میں خود باجوڑ، کلبور، سوات اور دیگر متاثرہ علاقوں کا دورہ کر چکا ہوں۔ ہماری اولین ترجیح متاثرہ افراد کی فوری مدد اور بحالی ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر مکمل ہم آہنگی سے کام ہو رہا ہے۔
ایسی تباہی تاریخ میں کم دیکھی گئی، لیکن ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ریلیف اور بحالی کا ہر قدم شفاف اور مؤثر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ریاستی مشینری الرٹ ہے، چیلنجز کے باوجود ہر ممکن قدم اٹھا رہے ہیں۔ باجوڑ میں حالات انتہائی نازک ہیں، ہر قدم پر محتاط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ آپریشنز جاری ہیں، متاثرین کی فوری مدد ہماری اولین ترجیح ہے۔ صوبائی حکومتیں اپنی حدود میں معاوضہ دیتی ہیں، مرکزی حکومت خاص کیسز پر توجہ دے رہی ہے۔
وزیراعظم کی صوابدیدی منظوری سے متاثرین کو ریلیف فراہم کیا جا رہا ہے۔ سوات اور صوابی کے دردناک واقعات پر فوری کارروائی جاری ہے۔ ہم سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے بالاتر ہو کر خدمت عامہ پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہماری حکومت عوام کے دکھ میں برابر شریک ہے، ہر متاثرہ کو حق دلانے کی کوشش ہے۔ کسی کو یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں کہ کون متاثر ہے اور کون نہیں۔
پرائیویٹ نہیں، عوام کی خدمت ہمارا نصب العین ہے۔ مشترکہ کوششوں سے اس مشکل گھڑی سے نکلیں گے۔

مزید پڑھیں :نئےصوبوں کی بحث،برین ڈرین،بڑھتی مہنگائی،حکومتی نا کامی کے ثبوت،ثنا اللہ مستی خیل نے پردے چاک کر دیئے

متعلقہ خبریں