اسلام آباد(اے بی این نیوز )صوبائی وزیر مزمل اسلم نے کہا کہ کلاؤڈ برسٹ ایک منفرد اور نہایت خطرناک قدرتی آفت ہے جو دیگر آفات سے بالکل مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو گلوبل وارمنگ کے اثرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ حساس ہیں، اور خیبر پختونخوا جیسے پہاڑی علاقوں میں اس کے اثرات مزید شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کے مطابق حالیہ کلاؤڈ برسٹ کے دوران مناظر انتہائی خوفناک تھے جہاں بڑے بڑے پتھر بھی پانی کے ساتھ بہتے ہوئے دیکھے گئے۔
مزمل اسلم نے افسوسناک انکشاف کیا کہ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں اب تک 328 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ خیبر پختونخوا میں فلڈ ایمرجنسی رسپانس سسٹم نے نہایت مؤثر کردار ادا کیا اور صرف 36 گھنٹوں کے دوران 5196 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔وہ اے بی این نیوز کے پروگرام بدلو میں گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا کہ
انہوں نے کہا کہ جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو 20،20 لاکھ روپے کی مالی امداد فراہم کی جائے گی اور یہ رقم براہ راست متاثرین کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کی جائے گی تاکہ شفافیت یقینی بنائی جا سکے۔ صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ ایسے قدرتی سانحات ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے خطرات کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل میں حفاظتی اقدامات کو مزید بہتر بنایا جائے تاکہ قیمتی جانوں کو بچایا جا سکے۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹر زینب نسیم نے اے بی این کے پروگرام بدلو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کلاؤڈ برسٹ (Cloud Burst) ایک ایسا موسمی مظہر ہے جس کی بروقت پیش گوئی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے پاس موجود جدید ترین ریڈار سسٹمز بھی درست طور پر نہیں کر پاتے۔انہوں نے کہا کہ یہ ضرور بتایا جا سکتا ہے کہ کن علاقوں میں شدید بارش کا امکان زیادہ ہے اور وہاں فلیش فلڈنگ (Flash Flooding) کا خطرہ موجود ہوتا ہے، خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں۔
ڈاکٹر زینب نے کہا کہ حال ہی میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے لیے بھی محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کی جانب سے شدید بارشوں اور ممکنہ صورتحال کے حوالے سے وارننگ جاری کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج ایک ایسا عالمی مظہر ہے جس پر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی مکمل طور پر قابو پانے میں ناکام ہیں، تو ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے یہ توقع رکھنا کہ کلاؤڈ برسٹ کو سو فیصد درستگی کے ساتھ پیش گوئی کر لیا جائے، حقیقت سے بعید ہے۔
ڈاکٹر زینب نسیم نے کہا کہ حالیہ دنوں میں شمالی علاقوں میں ہونے والی شدید بارشوں سے دریاؤں کے پانی کی سطح بلند ہو گئی ہے۔ اگر اسی دوران میدانی علاقوں میں بھی بارشیں ہو جائیں تو سیلابی ریلے مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں بھی نئے سپیل کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اس وقت پورا ملک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کہ کہاں پانی زیادہ ہو سکتا ہے اور کہاں تباہی کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ یہ سلسلہ ہر سال دہرایا جا سکتا ہے۔
اس لیے عوام اور اداروں کو ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ ماہر ماحولیات نے کہا کہ درختوں کی کٹائی، پہاڑوں اور ندی نالوں کے اطراف غیر قانونی تعمیرات، اور دریاؤں کے راستوں پر قبضے جیسی سرگرمیوں کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے، ورنہ نقصان مزید بڑھ جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان عالمی سطح پر یہ مؤقف رکھتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنے ملک کے اندر بھی ہم نے قدرتی نظام کو کمزور کیا ہے۔جب تک ہم اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کریں گے، ہم دنیا کے سامنے اپنی بات بھی مؤثر انداز میں نہیں رکھ سکیں گے۔
انہوں نے کہا۔ڈاکٹر زینب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے کے تحت لگائے گئے لاکھوں درختوں کو ٹمبر مافیا نے کاٹ دیا، جس کی وجہ سے فوائد کم ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک جنگلات کا تحفظ اور قدرتی راستوں کی بحالی یقینی نہیں بنائی جاتی، تباہ کن نتائج سے بچنا مشکل ہوگا۔
مزید پڑھیں :پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں،معافی مانگنا ممکن نہیں، شیر افضل مروت