اہم خبریں

فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اسلام آباد ، نویں جماعت کےنتائج،40 فیصد طلبہ ناکام

اسلام آباد (اے بی این نیوز)فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اسلام آباد نے نویں جماعت کے سالانہ امتحانات 2025 کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے، اور یہ نتائج نہ صرف طلبہ بلکہ والدین، اساتذہ اور تعلیمی حلقوں کے لیے بھی باعثِ حیرت بنے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر تقریباً 40فیصد طلبہ امتحانات میں ناکام رہے، جس سے ملک بھر میں تعلیمی معیار اور نظام پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

جاری کردہ گزیٹ کے مطابق کل 1 لاکھ 46 ہزار 348 طلبہ نے ان امتحانات میں شرکت کی، لیکن کامیاب ہونے والوں کی تعداد صرف 89 ہزار 882 رہی۔ اس طرح کامیابی کی مجموعی شرح صرف 62.18 فیصد رہی۔ ریگولر طلبہ کے نتائج نسبتاً بہتر نظر آئے، جہاں کامیابی کا تناسب 66.06 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے برعکس، پرائیویٹ یا ایکسٹرنل امیدواروں کے نتائج انتہائی مایوس کن رہے، جن میں صرف 23.10 فیصد طلبہ ہی کامیاب ہو سکے۔

سائنس گروپ کے ریگولر طلبہ کی کارکردگی قابلِ ذکر رہی، جبکہ ہیومینیٹیز گروپ کے نتائج خاصے غیر تسلی بخش ثابت ہوئے۔ سب سے تشویشناک صورتحال پرائیویٹ طلبہ کی رہی، جو سائنسی مضامین میں بہت پیچھے رہ گئے۔ متعدد امیدواروں نے ایک سے زائد مضامین میں ناکامی کا سامنا کیا، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تیاری میں سنجیدگی اور رہنمائی کا شدید فقدان تھا۔

ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ طلبہ کی ناکامی کی بنیادی وجوہات میں موثر تدریسی رہنمائی کی کمی، معیاری تعلیمی وسائل کا فقدان، اور وقت پر تیاری نہ کرنا شامل ہیں۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسیاں اور آن لائن سسٹمز نے بھی طلبہ کی کارکردگی کو منفی انداز میں متاثر کیا ہے، خاص طور پر وہ طلبہ جو خود سے پڑھائی کرتے ہیں یا کسی انسٹیٹیوٹ کی مدد کے بغیر امتحان میں شریک ہوتے ہیں۔

اس صورت حال نے والدین اور اساتذہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ انہوں نے فیڈرل بورڈ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس نتیجے کی گہرائی سے جانچ پڑتال کی جائے اور تعلیمی نظام میں ایسی اصلاحات لائی جائیں جو نہ صرف طلبہ کی تعلیمی بنیاد کو مضبوط کریں بلکہ ان کی مستقبل کی تیاری کو بھی مؤثر بنائیں۔

فیڈرل بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ سپلیمنٹری امتحانات کے حوالے سے تفصیلات جلد جاری کرے گا، تاکہ وہ طلبہ جو اس بار کامیاب نہیں ہو سکے، انہیں دوبارہ اپنی قابلیت ثابت کرنے کا موقع مل سکے۔

یہ نتائج نہ صرف تعلیمی نظام کی موجودہ کیفیت کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ یہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اگر بروقت اصلاحات نہ کی گئیں تو آئندہ سالوں میں بھی یہی تشویشناک رجحانات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تعلیمی پالیسیوں، نصاب، اور تدریسی طریقہ کار پر ازسرنو غور کریں تاکہ ملک کا تعلیمی مستقبل روشن اور مضبوط بنایا جا سکے۔

مزید پڑھیں :تمام خرابیوں کا حل قانون کی حکمرانی میں ہے،چیف جسٹس

متعلقہ خبریں