اسلام آباد(اے بی این نیوز)اغوا، جدائی، اور 32 سال بعد والدین سے ملاقات، ایک ایسا ناقابلِ یقین مگر سچا واقعہ جس نے سب کو حیرت، خوشی اور آنسوؤں میں ڈبو دیا۔ برسوں کی تلاش، بے شمار دعائیں، اور پھر یہ ملاپ اُن تمام خاندانوں کیلئے امید کی ایک روشن کرن ہے، جو آج بھی اپنے پیاروں کی راہ تکتے ہیں۔
پاکستان میں اس دل کو چھو لینے والے واقعے نے لاکھوں لوگوں کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک شخص، جو بچپن میں اغوا ہو گیا تھا، 32 سال بعد اپنے حقیقی والدین سے دوبارہ مل گیا۔ ملنے کے یہ جزباتی لمحات ہر آنکھ کو اشکبار کر گئے۔
1992 میں اسلام آباد کے علاقے بری امام سے ایک دو سالہ بچہ اغوا ہوا، جس کا نام پیدائش کے وقت محمد صدیق رکھا گیا تھا۔ اغوا کاروں نے اس کا نام تبدیل کر کے محمد آصف رکھ دیا اور اسے پنجاب کے ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں جھانوریا لے جایا گیا۔
آصف کے مطابق، اغوا کرنے والی ایک خاتون تھی جس کے تین بھائی اور ایک والدہ بھی تھیں۔ اسے ایک اور بچے کے ساتھ رکھا گیا جو اس کے لیے بڑے بھائی کی مانند تھا اور جس نے سب سے پہلے اسے بتایا کہ وہ دراصل اغوا شدہ ہیں۔
جھانوریا کے مقامی لوگوں نے وقت کے ساتھ محسوس کیا کہ یہ بچے اپنے ’گھرانے‘ سے مشابہت نہیں رکھتے، جس پر اغوا کاروں نے گاؤں چھوڑ دیا۔ آصف نے بتایا کہ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے کہ انہیں اغوا کیا گیا ہے، لیکن وہ ہمیشہ پیار سے محروم رہے اور اردگرد کے لوگوں کی باتوں سے حقیقت کا اندازہ ہونے لگا۔
تقریباً نو یا دس سال کی عمر میں آصف دوبارہ جھانوریا واپس آیا اور ایک نیک دل وکیل کی سرپرستی میں آ گیا۔ اس وکیل نے آصف کو پالا، تعلیم دلوائی اور زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دی۔
تعلیم میں دلچسپی کم ہونے کے باوجود آصف نے الیکٹریشن کا ہنر سیکھا، 2017 میں شادی کی، اور اپنی محنت سے گھر خریدا۔ لیکن دل میں ایک خلش باقی رہی، والدین سے ملاقات کی خواہش۔
ایک دن سونے کی دکان پر آصف نے اپنی یہ خواہش کسی اجنبی سے بیان کی، جس نے اسے ایک سماجی کارکن ولی اللہ معروف سے ملوایا۔ معروف ایسے کیسز پر کام کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر گمشدہ افراد کی ویڈیوز اپلوڈ کر کے ان کے اہلِ خانہ تک رسائی ممکن بناتے ہیں۔
ولی اللہ معروف کی کوششوں سے آصف کے والدین تک رابطہ ہوا اور 32 سال بعد وہ اپنے حقیقی ماں باپ سے ملا۔ اس ملاقات نے صرف ایک خاندان کو نہیں جوڑا بلکہ ان لاکھوں دلوں میں امید جگا دی جو اپنے بچھڑوں کی تلاش میں ہیں۔
آصف کے والدین نے کبھی ہار نہیں مانی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب انہوں نے اپنے بیٹے کو یاد نہ کیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ بچہ ان کے لیے دنیا کی سب سے قیمتی شے تھا، اور اس ملاقات نے ان کے دلوں کو نئی زندگی دے دی۔
یہ اللہ کا کرم، اور ماں باپ اور فیملی سے ملاپ ان تمام لوگوں کے دل کی امیدیں جگا گیا ہے جو اپنے کسی پیارے کی تلاش میں ہیں۔ یہ سچ ہے امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ایسے معجزے بھی اسی جہاں میں رونما ہوتے ہیں۔
کسی گمشدہ شخص کی تلاش، سماجی کارکنوں سے رابطہ، اور پھر ماں باپ سے ملنا، جب ربِ کریم چاہے تو کوششیں بارآور ہوتی ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے اور کوئی بھی زریعہ مددگار بن سکتا ہے۔
عمارت میں نصب4 آرڈی ایکس 3بجے پھٹیں گے،ممبئی اسٹاک ایکسچینج اُڑانے کی دھمکی،الرٹ جاری