اسلام آباد(محمد ابراہیم عباسی )اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابقہ میاں بیوی کے درمیان جائیداد، مہر اور نان نفقہ کے تنازع پر فیملی کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے فریقین کی درخواستوں پر سماعت کی اور فیصلہ سناتے ہوئے سیدہ بنت زہرہ اور محمد اسماعیل کی درخواستیں خارج کر دیں۔عدالت نے قرار دیا کہ فیملی کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ کے فیصلے مکمل طور پر قانون کے مطابق ہیں اور ان میں مداخلت کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
فیصلہ میں واضح کیا گیا کہ آئین کے تحت ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار محدود ہے اور یہ عدالت صرف اس وقت مداخلت کر سکتی ہے جب نچلی عدالتوں کے فیصلے قانون یا انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی پر مبنی ہوں۔
سیدہ بنت زہرہ نے فیملی کورٹ میں اپنے سابق شوہر محمد اسماعیل کے خلاف پچاس ہزار روپے ماہانہ نان نفقہ، پانچ لاکھ روپے بطور مہر اور اسلام آباد کے علاقے بی سترہ میں واقع پلاٹ کا دعویٰ دائر کیا تھا۔ خاتون نے نکاح نامے کے مخصوص کالمز اور ایک اقرار نامے کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ مذکورہ پلاٹ پر تعمیر ہونے والا گھر میاں بیوی کی مشترکہ ملکیت قرار پایا تھا۔
فیملی کورٹ نے تین ماہ کے لیے بیس ہزار روپے ماہانہ نان نفقہ کی ادائیگی کا حکم دیا، تاہم پانچ لاکھ روپے مہر کا دعویٰ مسترد کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ مہر کا دعویٰ ٹھوس شواہد سے ثابت نہیں ہوا، خصوصاً مدعیہ کے بھائی کی جانب سے تھانہ صدر راولپنڈی میں درج ایف آئی آر میں سونے کے زیورات اور دیگر اشیاء چھیننے کا الزام بھی شامل تھا، جو دعویٰ کو مشکوک بناتا ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ نکاح نامہ اور اقرار نامہ ایک سول معاہدہ ہیں اور ان کی شرائط دونوں فریقین پر برابر لاگو ہوتی ہیں۔ اسی بنیاد پر فیصلہ دیا گیا کہ اسلام آباد کے سیکٹر بی سترہ میں واقع مذکورہ جائیداد میاں بیوی کی مشترکہ ملکیت رہے گی۔بعد ازاں دونوں فریقین نے فیملی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی، تاہم اپیلیٹ کورٹ نے بھی وہ اپیلیں خارج کر دیں۔
ہائیکورٹ نے بھی اس مؤقف کو تسلیم کیا کہ تحریری درخواست کو اپیل یا نظرثانی کا متبادل نہیں بنایا جا سکتا، اور شواہد کی بنیاد پر دیے گئے فیصلے ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں چیلنج نہیں کیے جا سکتے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ پلاٹ کی مشترکہ ملکیت سے متعلق دیا گیا فیصلہ بالکل درست اور قانون کے مطابق ہے، جبکہ نان نفقہ اور مہر سے متعلق شواہد کی روشنی میں نچلی عدالتوں کے فیصلے مکمل طور پر قابلِ اعتماد ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت کو جھٹکا،برازیل نے آکاش میزائل کی خریداری روک دی